اے ایم این
اقتصادی ماہرین کے مطابق امریکی معیشت کی ترقی کے لئے یہ سال بہترین ثابت ہو سکتا ہے۔ اسکا ثبوت اس بات سے ہے کہ سال کی پہلی سہ ماہی میں امریکی معیشت کی نمو میں 6.6 فی صد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔جس کی وجہ شہریوں کی قوت خرید اور خرچ میں اضافہ ہوا ہے۔دوسری جانب بے روزگاری الاؤنس پانے والے امریکیوں کی تعداد میں بھی کمی ہوئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں ملازمت کے مواقع پھر سے بڑھ رہے ہیں۔ ڈپارٹمنٹ آف کامرس کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ملک کی مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی) گزشتہ لگائے گئے دو تخمینوں کے برابر ہی رہی ہے۔ تاہم معاشی ماہرین کے اندازوں کے مطابق اپریل سے جولائی تک کی موجودہ سہ ماہی میں جی ڈی پی کی نمو میں تیزی آئے گی اور یہ سالانہ دس فیصد یا اس سے بہتر سطح پر پہنچ سکتی ہے۔ اقتصادی ماہرین یہ بھی توقع کر رہے ہیں کہ ملکی معیشت جلد ہی سات فیصد تک کی نمو حاصل کر لے گی۔سکوک بانڈز ہوتے کیا ہیں اور ان کے لیے پاکستان اپنے اثاثے کیوں ‘گروی’ رکھوا رہا ہے؟اے پی کے مطابق اس سے پہلے امریکی معیشت میں اتنی تیزی 1984 میں نظر آئی تھی جب ملک بدترین کساد بازاری سے نکل رہا تھا۔ یہ کساد بازاری امریکی فیڈرل ریزرو کے ملک میں شرح سود بڑھانے کے فیصلے پر پیدا ہوئی تھی۔ فیڈرل ریزرو نے یہ اقدام ستر کی دہائی میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے اٹھایا تھا۔کچھ ماہرین یہ بھی پیش گوئی کر رہے ہیں کہ موجودہ سال معیشت کی شرح ترقی 1984 کی نمو کو پیچھے چھوڑتے ہوئے 7.7 تک پہنچ جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو 1951 کے بعد سے اب تک یہ امریکی معیشت کی بہترین کارکردگی ہوگی۔امریکی معیشت کی سرگرمی دو تہائی سے زیادہ صارفین کی قوت خرید اور اخراجات پر انحصار کرتی ہے جس میں مستقل اضافہ حوصلہ افزا ہے۔ سال کی پہلی سہ ماہی میں یہ سرگرمی پچھلے ماہ 0.1%کے اضافے کے ساتھ سالانہ 11.4 تک پہنچ گئی ہے۔امریکی حکومت نے کرونا ویکسین کی عوام تک فراہمی ممکن بنانے کے بعد پابندیوں میں نرمی دکھائی ہے جس سے ملک میں کئی چھوٹے کاروبار دوبارہ سے مکمل طور پر کھل گئے ہیں اور خریداروں کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ٹریول انڈسٹری اور ریستوران دو ایسے کاروبار ہیں جن کی سرگرمی کا رکا ہوا پہیہ دوبارہ چل پڑا ہے۔اے پی کے مطابق دوسری جانب ملک میں بے روزگاری میں بھی بتدریج کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ ڈپارٹمنٹ آف لیبر کو بے روزگاری امداد کے لئے پچھلے ہفتے کے مقابلے میں 4 ہزار کم درخواستیں موصول ہوئیں۔
اس ہفتے ان درخواستوں کی تعداد 4 لاکھ 11 ہزار رہی جب کہ اسی سال جنوری میں یہ تعداد نو لاکھ تھی۔ بے روزگاری امداد کی درخواستوں میں کمی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ملک میں ملازمتوں کی تعداد اور بھرتیاں بڑھ رہی ہیں۔
اس ماہ امریکہ کی 26 ریاستی حکومتیں اپنے شہریوں کے لئے کرونا وبا کی مد میں وفاقی حکومت کا جاری کردہ خصوصی بیروزگاری الاؤنس بھی ختم کر رہی ہیں۔ اس الاؤنس کے ذریعے بے روزگار اور کم آمدنی والے افراد کو 300 ڈالر فی ہفتہ دیے جاتے ہیں۔
ایسا کرنے کی وجہ یہ تاثر ہے کہ لوگ دوبارہ سے ملازمتوں پر جانے کے بجائے گھر بیٹھے حکومتی امداد سے اپنا خرچ چلا رہے ہیں۔ ملک میں
بہت سے ایسے کاروبار ہیں جنہیں شکایت ہے کے ان کے پاس ملازمتیں ہیں مگر امیدوار نہیں۔یاد رہے وفاقی بے روزگاری الاؤنس ستمبر سے ملک بھر میں ختم کر دیا جائے گا۔
سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے کی ملازمتوں میں تیزی سے اضافہ
تشفی بخش بات یہ ہے کہ امریکہ میں سال 2000 کے بعد سے سٹیم (STEM)، یعنی سائنس ٹیکنالوجی، انجنئیرنگ اور میتھ میٹکس (ریاضی) کی ملازمتوں میں دوسری ملازمتوں کے مقابلے میں 3 گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ گریجوایٹس کی تعداد اب بھی اتنی نہیں ہے کہ ان شعبوں کی ضروریات کو پورا کر سکے۔امریکہ کی نیشنل سٹیم آنر سوسائٹی کے سربراہ کینٹھ ہیچٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ ہم دن میں کمپیوٹر، ٹیبلٹ اور فون کو کتنی بار استعمال کرتے ہیں۔ان کے مطابق یہ شعبے اس قدر تیزی سے ترقی کر رہے ہیں کہ جو بچے ابھی ہائی سکول میں ہیں، انہیں وہ ملازمتیں حاصل ہو سکتی ہیں، جن کا ابھی تک وجود بھی نہیں ہے۔ ایلی سن ہینی کے مطابق سٹیم میں ہائی ٹیک کا شعبہ بھی آتا ہے اور روایتی ملازمتیں بھی اس میں شامل ہیں۔ مثال کے طور پر جہاں سٹیم میں کمپیوٹر سائنس سے متعلق ملازمتیں شامل ہیں، وہیں ان میں وبائی امراض کے ماہرین، انتہائی نگہداشت کی نرسیں اور نقشہ نگار بھی شامل ہیں۔امریکہ میں کرونا وائرس کی وبا کے بعد طبی شعبے میں تیزی سے ملازمتوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ایجوکیشن کی ایک تحقیق کے مطابق امریکہ میں بین الاقوامی طلبا سٹیم شعبوں میں کمپیوٹر سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سب سے زیادہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
امریکی بیورو آف لیبر سٹیٹسٹکس کی ویب سائٹ کے مطابق 2019 سے 2029 کے دوران انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر سے متعلقہ ملازمتوں میں 11 فیصد اضافہ متوقع ہے۔ ویب سائٹ کے مطابق یہ اضافہ دوسرے شعبوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔بیورو کے مطابق توقع ہے کہ یہ شعبے امریکہ میں 2029 تک ملازمتوں میں مزید 5 لاکھ 31 ہزار 2 سو کا اضافہ کریں گے۔ بیورو کے مطابق کلاؤڈ کمپیوٹنگ، ڈیٹا سے متعلق ملازمتیں اور انفارمیشن سیکیورٹی کی ملازمتوں کے لیے نئے ملازمین کی زیادہ طلب ہو گی۔امریکہ میں کرونا وائرس کی وبا کے دوران ملک میں دستیاب گریجوایٹس میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ بین الاقوامی طلبا کا وبا کے دوران اپنے آبائی ممالک میں وقت گزارنا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں سٹیم سے متعلق شعبوں میں بہتر تنخواہیں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔
کیلی فورنیا میں اساتذہ کی جانب سے قائم کئے گئے ادارے ایمپیکٹ سائنس جس کا مقصد نوجوان طلبا کو سائنس کی جانب متوجہ کرنا ہے، اس کی ایک تحقیق کے مطابق 2018 میں سٹیم سے متعلقہ شعبوں میں 24 لاکھ اسامیاں خالی پڑی تھیں۔اپریل 2021 میں شائع ہونے والی نیشنل فاؤنڈیشن فار امیرکن پالیسی کی ایک تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی طلبا کو امریکی یونیورسٹیوں میں جگہ دینے سے امریکی طلبا کے لیے ان یونیورسٹیوں میں جگہ کم نہیں پڑتی بلکہ امریکی طلبا کے سٹیم شعبوں میں بیچلر کرنے کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔تحقیق کے مطابق تمام شعبوں میں 10 بین الاقوامی طلبا کو ڈگری دینے کے مقابلے میں 15 امریکی طلبا کو سٹیم کے شعبوں میں
ڈگری دی گئی ہے۔ تحقیق کے مطابق اگر امریکی طلبا بین الاقوامی طلبا کے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں تو اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ وہ سٹیم کے شعبوں میں ڈگری حاصل کریں گے۔ادارے کے مطابق امریکہ میں سٹیم کے شعبوں میں گریجوایٹس کی قلت ہے۔ وہ طلبا جو سٹیم کے شعبوں میں ڈگری حاصل کرتے ہیں وہ اپنے کیر کیرئیر کی ابتدا میں دوسرے طلبا سے زیادہ آمدن حاصل کرتے ہیں۔جب کہ امریکی امیگریشن اینڈ کسٹم انفورسمنٹ (آیس) نے پچھلے برس اعلان کیا تھا کہ کرونا وائرس کے دوران جو بین الاقوامی طلبا یونی ورسٹی کیمپس میں تعلیم حاصل نہیں کر رہے۔ ان کے ویزے ختم کیے جا رہے ہیں، تو اس پر گوگل، فیس بک، مائیکروسافٹ اور ٹوئٹر نے ادارے کو لکھے گئے ایک خط میں کہا تھا کہ ”امریکہ کی مستقبل میں مسابقت برقرار رکھنے کی کوشش اس پر منحصر ہے کہ ہم بین الاقوامی ٹیلنٹ کو کس قدر اپنی طرف کھینچ سکتے ہیں اور اسے ملک میں رکھ سکتے ہیں۔“ VOA-
َََََََََََََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
VOA