Agencies

بریلی: ’آئی لو محمد‘ مہم کے حق میں احتجاجی مارچ کے بعد شہر میں جمعہ کو بھڑکی ہوئی کشیدگی ہفتے کو اس وقت اور بڑھ گئی جب پولیس نے مقامی عالمِ دین اور اتحادِ ملت کونسل کے صدر مولانا توقیر رضا خان کو گرفتار کر کے 14 روزہ عدالتی حراست میں بھیج دیا۔

ضلعی انتظامیہ نے حالات پر قابو پانے اور افواہوں کو روکنے کے لیے پورے ضلع میں 48 گھنٹوں کے لیے انٹرنیٹ خدمات معطل کر دیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مولانا نے اجازت نہ ملنے کے باوجود جمعہ کی نماز کے بعد جلوس نکالنے کی اپیل کی تھی۔ جب بڑی تعداد میں لوگ کوٹوالی مسجد کے باہر جمع ہوئے تو حالات بگڑ گئے۔ کچھ افراد کے پتھراؤ کرنے پر پولیس کو ہلکا لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ جھڑپیں درگاہِ اعلیٰ حضرت، اسلامیہ گراؤنڈ، عالمگیری گنج، سول لائن، بڑا بازار اور بانس منڈی سمیت کئی علاقوں تک پھیل گئیں، جس کے سبب دکانیں بند کر دی گئیں۔

ڈی آئی جی اجے کمار ساہنی نے واقعے کو ’’سوچی سمجھی سازش‘‘ قرار دیا۔ پولیس کے مطابق مولانا توقیر رضا کو ہفتہ کی صبح فیض انکلیو سے گرفتار کیا گیا۔ اس دوران انہوں نے اپنے حامیوں کو یہ تاثر دیا تھا کہ وہ دہلی جا چکے ہیں، جبکہ وہ دراصل بریلی میں ہی موجود تھے۔

پولیس نے اب تک 11 ایف آئی آر درج کر کے 2000 سے زائد افراد کو نامزد کیا ہے، جن میں مولانا توقیر رضا بھی شامل ہیں۔ ان کے ساتھ سات دیگر افراد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے، جبکہ 36 افراد سے پوچھ گچھ جاری ہے۔

وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ’’انارکی برداشت نہیں کی جائے گی‘‘ اور قانون شکنی کرنے والوں کے خلاف کڑی کارروائی ہوگی۔

دوسری جانب اپوزیشن نے پولیس کارروائی پر نکتہ چینی کی ہے۔ اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اسد الدین اویسی نے کہا کہ یہ مہم جرم نہیں ہے، جبکہ سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے اسے پولیس کی من مانی قرار دیا۔

قابل ذکر ہے کہ یہ تنازعہ 4 ستمبر کو کانپور میں عید میلاد النبی کے جلوس کے دوران لگائے گئے ’آئی لو محمد‘ بورڈ سے شروع ہوا تھا۔ 9 ستمبر کو پولیس نے 24 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی، جس پر ہندو تنظیموں نے ’’روایت سے انحراف‘‘ اور ’’اشتعال انگیزی‘‘ کا الزام لگایا۔ معاملہ بعد میں اتر پردیش کے دوسرے اضلاع کے علاوہ اتراکھنڈ اور کرناٹک تک پھیل گیا، جہاں مظاہرے اور پولیس کارروائیاں دیکھنے کو ملیں۔