AMN / UN NEWS

اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے مسلح تنازعات کے دوران جنسی تشدد کو وحشیانہ جرم قرار دیتے ہوئے اس کی بیخ کنی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کے لیے کہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس جرم کے ذمہ داروں کا محاسبہ ہونا ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ان مظالم کو ہونے سے پہلے ہی روکنے کے طریقہ کار بھی وضع کرنا ہوں گے۔ اس مقصد کے لیے ایسی اختراعی اور تخلیقی حکمت عملی درکار ہے جس سے ناصرف جنگوں کے دوران جنسی تشدد کا خاتمہ ہو بلکہ اسے روکا اور بالآخر اس جرم کو قصہ ماضی بنانا بھی ممکن ہو سکے۔
امینہ محمد نے یہ بات اس مسئلے پر اقوام متحدہ کی قرارداد 1888 (2009) کی منظوری کو 15 برس مکمل ہونے پر ادارے کے ہیڈکوارٹر (نیویارک) میں منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔اس قرارداد میں جنگوں کے دوران جنسی تشدد کا خاتمہ کرنے کی غرض سے اقوام متحدہ کی کوششوں کی قیادت کے لیے ایک خصوصی نمائندہ مقرر کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔
مستقبل پر اثرات
دوران جنگ جنسی تشدد کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی موجودہ نمائندہ خصوصی پرامیلا پیٹن نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنگوں میں جنسی تشدد کا بطور ہتھیار استعمال معاشروں کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ اس سے نقل مکانی کا بحران پیدا ہوتا ہے اور اس جرم کے اثرات آئندہ نسلوں تک جاری رہتے ہیں۔
نمائندہ خصوصی نے کہا کہ جنگوں میں جنسی تشدد کی تاریخ خود جنگوں جتنی ہی قدیم ہے۔ خواتین اور لڑکیاں اس جرم سے غیرمتناسب طور پر متاثر ہوتی ہیں۔ آج سوڈان، یوکرین، غزہ، میانمار، جمہوریہ کانگو اور دیگر ممالک میں 612 ملین خواتین اور لڑکیوں کو جنگی حالات اور اس دوران جنسی تشدد کے خطرے کا سامنا ہے۔
متاثرین کے لیے انصاف
اس موقع پر جنسی تشدد کے متاثرین نے جنگوں کے دوران خود کو درپیش حالات کے بارے میں بتایا۔
یوکرین سے تعلق رکھنے والی لڈمیلا ہوسینیووا نے بتایا کہ 2014 میں روس کے حملے کے بعد انہیں حملہ آور فوج کی تین سالہ قید میں جسمانی و جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں 2019 میں اغوا کیا گیا اور اکتوبر 2022 میں قیدیوں کے تبادلے کے دوران ان کی رہائی عمل میں آئی۔ تب سے وہ ایسی خواتین کی رہائی کے لیے کام کر رہی ہیں جو تاحال روس کی قید میں ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ایسی ہزاروں خواتین کو ناقابل بیان ہولناکیوں کا سامنا ہے، وہ اپنے بچوں سے بچھڑ گئی ہیں اور انہیں طبی و قانونی امداد تک رسائی نہیں ہے۔
پرامیلا پیٹن نے متاثرین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے کی روک تھام کے لیے قراردادوں کو عملی اقدامات میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ متاثرین کے لیے ضروری خدمات کی فراہمی میں اضافہ ہونا چاہیے، انہیں معاشی مواقع ملنے چاہئیں اور انہیں انصاف اور ازالے تک رسائی ہونی چاہیے۔ تاہم، سب سے بڑھ کر انہیں جس چیز کی ضرورت ہے وہ امن ہے۔

احتساب کی ضرورت
امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا کہ قرارداد 1888 ایک طویل سفر کی جانب محض پہلا قدم تھی۔ اگرچہ اس سے بعد آنے والے برسوں میں مثبت پیش رفت بھی دیکھنے کو ملی ہے لیکن یہ کافی نہیں۔چونکہ دوران جنگ جنسی تشدد کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے جنگوں کا خاتمہ کرنا ہی سب سے اہم بات ہے اسی لیے امن کی جستجو سبھی کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ عالمی برادری متاثرین کے نقصان کا ازالہ کرنے میں معاونت کرے اور انہیں جنگ کے شہری متاثرین تسلیم کیا جائے۔ اس حیثیت کا اطلاق دوران جنگ جنسی تشدد کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں پر بھی ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اس جرم کے ذمہ داروں کا محاسبہ کرنا ضروری ہے اور اس کا آغاز بالائی سطح کے حکام سے ہونا چاہیے جو شہری آبادیوں پر حملوں کا حکم دیتے ہیں اور منظم جنسی تشدد کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ ایسے عناصر انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اسی لیے وہ سیکرٹری جنرل کی تیارکردہ ‘فہرست ذلت’ میں روس کو شامل کرنے کا مطالبہ کرتی ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ
2023 میں دوران جنگ جنسی تشدد سے متعلق اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 50 ممالک اور غیرریاستی مسلح گروہ دوران جنگ جنسی تشدد کے مرتکب پائے گئے ہیں یا اس کے بالواسطہ ذمہ دار ہیں۔ان گروہوں میں عراق اور شام میں سرگرم داعش، صومالیہ میں الشباب اور سوڈان میں جاری وحشیانہ جنگ کے دونوں متحارب عسکری فریق بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں دی گئی فہرست میں شامل متعدد ممالک اور گروہ کئی سال سے ایسے تشدد کا ارتکاب کرتے چلے آئے ہیں۔