Welcome to The Indian Awaaz   Click to listen highlighted text! Welcome to The Indian Awaaz



تارکین وطن صرف گھر نہیں سنوارتے بلکہ پوری معیشتوں کو سہارا دیتے ہیں


عندلیب اختر


ہر روز لاکھوں مہاجر دنیا کے مختلف کونوں سے، اپنے وطن کی جانب ایک خاموش مگر طاقتور پیغام بھیجتے ہیں —ایک ترسیل جو صرف رقم نہیں بلکہ امید، قربانی، اور محبت کی علامت ہوتی ہے۔ یہ رقم کسی اسکول کی فیس بن جاتی ہے، کسی بیمار ماں کی دوا، کسی چھوٹے کاروبار کی شروعات، یا کسی خواب کی تعبیر۔ ان ترسیلات میں بسے ہوئے جذبات کی قدر کرنے کے لیے، ہر سال 16 جون کو ”خاندانی ترسیلات زر کا عالمی دن” منایا جاتا ہے—ایسا دن جو ان مہاجرین کی محنت کو سلام پیش کرتا ہے جن کے پیسے صرف گھر نہیں سنوارتے بلکہ پوری معیشتوں کو سہارا دیتے ہیں۔اسی پس منظر میں ورلڈ مائیگریشن رپورٹ 2024 ہمیں یاد دلاتی ہے کہ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی ترسیلات زر کس طرح عالمی معیشت، ترقی اور انسانی رشتوں کو جوڑنے کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ اس منظرنامے میں ہندوستان اپنی مثال آپ ہے—نہ صرف ترسیلات حاصل کرنے والا سب سے بڑا ملک، بلکہ ایسی کہانیوں کا مرکز جہاں لاکھوں خاندان اپنے کسی عزیز کی کمائی سے زندگی کے خواب بُن رہے ہیں


ہر سال 16 جون کو دنیا خاندانی ترسیلات زر کے عالمی دن کے موقع پر ان لاکھوں مہاجر کارکنوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے، جو اپنے خاندانوں کو پیسے بھیج کر نہ صرف ان کی ضروریات پوری کرتے ہیں بلکہ دنیا بھر کی معیشتوں میں بھی ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس سال یہ دن ورلڈ مائیگریشن رپورٹ 2024 کے اجراء کے ساتھ آیا ہے، جو مہاجرت کے بدلتے ہوئے رجحانات، بالخصوص ترسیلات زر کی اہمیت اور ہندوستان جیسے ممالک میں ان کے اثرات کو اجاگر کرتی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق، 2022 میں ترقی پذیر ممالک کو 831 ارب امریکی ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں، اور یہ رجحان 2024 میں بھی مضبوط رہا ہے۔ عالمی معیشت کو درپیش چیلنجز جیسے روس-یوکرین جنگ، مہنگائی اور وبا کے اثرات کے باوجود، ترسیلات زر نے اپنی مضبوطی ثابت کی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ترسیلات زر اب غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) اور ترقیاتی امداد (ODA) سے بھی زیادہ پائیدار مالی ذریعہ بن چکی ہیں۔ اس تناظر میں ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا ترسیلات زر وصول کرنے والا ملک بن کر سامنے آیا ہے۔ 2022 میں بھارت کو 111 ارب ڈالر سے زیادہ موصول ہوئے، اور 2023 میں یہ رقم تقریباً 125 ارب ڈالر تک پہنچ گئی، جو 2024 میں مزید بڑھنے کی توقع ہے۔ یہ کوئی اچانک واقعہ نہیں، بلکہ دہائیوں سے جاری بیرون ملک ہجرت اور مہاجر کارکنوں کی محنت کا نتیجہ ہے، خاص طور پر خلیجی ممالک، امریکہ، اور برطانیہ جیسے ممالک میں جہاں بھارتی تارکین وطن بڑی تعداد میں مقیم ہیں۔
وزارتِ خارجہ کے مطابق، بھارت کی اوورسیز کمیونٹی یعنی NRI اور PIO کی تعداد 35 ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان میں مزدور، ٹیکنالوجی ماہرین، ڈاکٹر، نرسز اور طلبہ شامل ہیں۔ ان کی بھیجی گئی رقوم صرف مالی مدد نہیں بلکہ پورے سماجی نظام کو سہارا دینے کا ذریعہ ہیں۔ دیہی علاقوں میں، جہاں آمدنی کے ذرائع محدود ہیں، وہاں یہ رقم زندگی کی ضمانت بن چکی ہے۔خلیجی ممالک، بالخصوص متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب، بھارت کے ترسیلات زر کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ صرف ان ممالک سے 2022 میں 50 ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم بھارت آئی۔ اس کے علاوہ امریکہ، برطانیہ، اور کینیڈا سے بھی بڑی مقدار میں ترسیلات موصول ہوتی ہیں۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ امیگریشن قوانین میں سختی اور عالمی سست روی کے باوجود ان رقوم کا سلسلہ متاثر نہیں ہوا، کیونکہ ان کے پیچھے صرف معاشی نہیں بلکہ جذباتی تعلقات بھی ہیں۔


ترسیلات زر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ براہ راست عام لوگوں تک پہنچتی ہیں۔ یہ رقوم تعلیم، صحت، رہائش، خوراک اور ہنگامی ضروریات کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ کیرالہ، پنجاب، بہار اور اترپردیش جیسے ریاستوں کی معیشت ان ترسیلات کے اردگرد گھومتی ہے۔ اس رقم سے چھوٹے کاروبار بھی شروع ہوتے ہیں اور مقامی معیشت کو نئی جان ملتی ہے۔تاہم، رپورٹ کچھ خدشات کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ ترسیلات بھیجنے کی لاگت ہے۔ 2023 میں، اوسطاً 200 ڈالر بھیجنے کی لاگت 6.4 فیصد تھی، جو اقوام متحدہ کے 3 فیصد کے ہدف سے کہیں زیادہ ہے۔ اگرچہ ڈیجیٹل ذرائع نے کچھ حد تک یہ خرچ کم کیا ہے، مگر اب بھی بہت سے کم آمدنی والے مہاجرین مہنگے طریقوں پر انحصار کرتے ہیں۔


ایک اور چیلنج میزبان ممالک کی پالیسیاں ہیں۔ امریکہ میں غیر شہریوں کی بھیجی گئی ترسیلات پر ممکنہ 3.5 فیصد ٹیکس کی تجویز سامنے آئی ہے، جس سے بھارتی برادری میں تشویش پائی جاتی ہے۔ اگر یہ نافذ ہوتی ہے، تو ترسیلات غیر رسمی ذرائع کی طرف مائل ہو سکتی ہیں، جس سے شفافیت اور سیکیورٹی متاثر ہو گی۔اس کے باوجود، ورلڈ مائیگریشن رپورٹ اور خاندانی ترسیلات زر کا عالمی دن ہمیں امید کا پیغام دیتے ہیں۔ دنیا بھر کے 20 کروڑ مہاجر کارکن، اپنی محنت کی کمائی 80 کروڑ افراد کو بھیجتے ہیں۔ ان ترسیلات کا مطلب صرف پیسہ نہیں بلکہ ایک ایسا رشتہ ہے جو فاصلوں کو پاٹتا ہے، اور دنیا کو بہتر بنانے میں خاموشی سے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔بھارت کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ ان ترسیلات کو مزید منظم، محفوظ اور پائیدار بنائے۔ حکومت نے پچھلے برسوں میں کچھ اہم اقدامات کیے ہیں جیسے پراواسی بھارتیہ بیمہ یوجنا، تربیتی پروگرام، اور دوطرفہ معاہدے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ اگر ان رقوم کو کمیونٹی کی سطح پر ترقیاتی منصوبوں سے جوڑ دیا جائے تو ان کا اثر کئی گنا بڑھ سکتا ہے۔
اس سال کے عالمی دن کا نعرہ ہے: ”ڈیجیٹل ترسیلات: مالی شمولیت اور کم لاگت کی طرف”۔ اس کا مقصد ہے کہ ترسیلات بھیجنے کے عمل کو سستا، تیز، اور محفوظ بنایا جائے تاکہ ہر مہاجر کی کمائی کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اس کے خاندان کو پہنچے۔آخر میں، ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ترسیلات زر صرف مالی لین دین نہیں بلکہ محبت، اعتماد، قربانی اور سماجی رشتوں کی نمائندگی ہیں۔ یہ وہ خاموش قوت ہے جو خاندانوں کو جوڑے رکھتی ہے، بچوں کے مستقبل سنوارتی ہے، اور وطن سے دور افراد کو اپنی مٹی سے جڑے رہنے کا احساس دلاتی ہے۔


عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) کے مطابق 2024 میں ہی مہاجرین نے تقریباً 700 ارب ڈالر کم اور متوسط آمدنی والے اپنے آبائی ممالک میں بھیجے۔ اب یہ ترسیلات ان ممالک میں سرکاری ترقیاتی امداد اور بیرون ملک سے آنے والی براہ راست سرمایہ کاری سے تجاوز کر گئی ہیں۔ اس طرح یہ ان ممالک کے لیے بیرون ملک سے مالیات کا انتہائی قابل بھروسہ ذریعہ بن گیا ہے۔ادارے کی ڈائریکٹر جنرل ایمی پوپ نے کہا ہے کہ جب تارکین وطن یا مہاجرین اپنے ممالک میں رقومات بھیجتے ہیں تو اس سے صرف ان کے گھرانوں کو ہی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ ان کی بدولت پورے خطے کو ترقی میں مدد ملتی ہے۔ ایسی رقومات کی بدولت بچے تعلیم پاتے ہیں، خواتین کاروبار شروع کر سکتی ہیں اور بحرانوں کے دور میں ضروری مدد میسر آتی ہے۔ جب انہیں دانشمندانہ طور سے استعمال کیا جاتا ہے تو وہ ترقی کے ایسے موثر ذرائع بن جاتی ہیں جن سے ان ممالک کو بھی فائدہ پہنچتا ہے جہاں سے یہ بھیجی جاتی ہیں۔

Click to listen highlighted text!