andalib akhter عندلیب اختر


عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر میں پانی کے قدرتی ذرائع شدید دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں حیات بخش وسائل پر بڑھتے ہوئے خطرات نے لاکھوں افراد کی زندگیاں اور روزگار براہ راست متاثر کیے ہیں۔ ادارے کی سیکرٹری جنرل سیلیسٹ ساؤلو نے کہا کہ 2024 آبی آفات کے لحاظ سے انتہائی خطرناک ثابت ہوا اور یہ سلسلہ رکنے کے بجائے تیز تر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔


بھارت سمیت جنوبی ایشیا کے کئی خطے ان اثرات کا براہِ راست سامنا کر رہے ہیں۔ چند ماہ قبل بھارت کی ریاست ہماچل پردیش اور جموں و کشمیر میں غیر متوقع اور شدید بارشوں نے تباہی مچائی۔ ڈبلیو ایم او کی ماہر سائنس داں سلگنا مشرا کے مطابق یہ بارشیں اُس وقت ہوئیں جب ان کی توقع نہیں تھی اور قبل از وقت مون سون کے آنے نے ماحولیاتی بے ترتیبی کو نمایاں کر دیا۔ پاکستان اور انڈیا کے شمالی حصے وہ علاقے ہیں جہاں بار بار آنے والے سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ لاکھوں افراد کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔
بھارت، پاکستان، انڈونیشیا اور ایران وہ خطے ہیں جہاں بارش اور سیلاب کے ساتھ ساتھ پانی کے ذخائر میں کمی، زیر زمین پانی کی تیزی سے کمی اور مٹی کی نمی میں گراوٹ تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ ان تبدیلیوں نے زرعی پیداوار پر بھی منفی اثرات ڈالے، جس سے لاکھوں کسانوں کے روزگار کو خطرہ لاحق ہے۔


عالمی منظرنامہ اور بڑھتی تباہ کاریاں
سیلیسٹ ساؤلو نے کہا کہ فضا کی بڑھتی ہوئی گرمی پانی کی بڑی مقدار کو بخارات میں تبدیل کر دیتی ہے، جس کے نتیجے میں شدید اور غیر متوقع بارشیں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 2024 گزشتہ 175 برس کی تاریخ کا گرم ترین سال رہا۔ زمین کی سطح کا درجہ حرارت قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.55 ڈگری سیلسیس بڑھ گیا، جس کے براہ راست اثرات آبی ذرائع اور انسانی زندگی پر مرتب ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال یورپ میں طوفان ”بورس” کے نتیجے میں آنے والے شدید سیلاب نے ہزاروں لوگوں کو بے گھر کر دیا۔ سائنسی اندازوں کے مطابق ایسی آفات صدی میں ایک بار آنا چاہیے تھیں، لیکن اب یہ معمول بنتی جا رہی ہیں۔ وسطی اور مشرقی یورپ، جنوبی سوڈان اور مغربی افریقہ کے کئی ممالک بار بار آنے والے سیلاب، طوفان اور خشک سالی سے دوچار ہوئے۔


ڈبلیو ایم او نے بتایا کہ گزشتہ سال ”ال نینو” موسمی کیفیت نے ایمازون ریجن کو شدید خشک سالی میں مبتلا کر دیا۔ اسی دوران شمال مغربی میکسیکو اور امریکہ کے کئی حصوں میں بارشیں معمول سے کم ہوئیں جبکہ جنوبی و جنوب مشرقی افریقہ میں بھی یہی صورتحال دیکھنے میں آئی۔

مستقبل کا خطرہ اور ضروری اقدامات
ڈبلیو ایم او نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ 2024 مسلسل تیسرا سال تھا جب گلیشیئرز نے بڑے پیمانے پر برف کھوئی۔ صرف ایک سال میں 450 گیگا ٹن برف کا نقصان ہوا جو سمندر کی سطح میں 1.2 ملی میٹر اضافے کے مترادف ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ساحلی علاقوں میں کروڑوں افراد سیلاب کے براہ راست خطرے سے دوچار ہوں گے۔ یہ خطرہ خاص طور پر جنوبی ایشیا اور بحر ہند کے خطے میں زیادہ ہے جہاں کروڑوں لوگ ساحلی علاقوں میں رہتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے ایک حصے میں آبی چکر میں ہونے والی تبدیلیاں دوسرے خطوں کو بھی براہ راست متاثر کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر یورپ میں برف پگھلنے سے پیدا ہونے والے اضافی پانی کے اثرات ایشیا کے کئی علاقوں پر بھی پڑتے ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے عالمی تعاون اور ڈیٹا کے تبادلے کو ناگزیر قرار دیا گیا ہے۔سیلیسٹ ساؤلو کا کہنا ہے کہ اگر موسمیاتی تبدیلی پر قابو نہ پایا گیا تو خشک سالی، سیلاب، اور سمندری طوفان معمول بن جائیں گے۔ انہوں نے حکومتوں پر زور دیا کہ پانی کے انتظام، زیر زمین پانی کے تحفظ اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو ترجیح دیں تاکہ مستقبل میں بڑے انسانی المیے سے بچا جا سکے۔AMN

اہم نکات (Bullet Points)
2024 گزشتہ 175 سالہ تاریخ کا گرم ترین سال رہا۔
بھارت، پاکستان، انڈونیشیا اور ایران میں غیر متوقع بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچائی۔
یورپ میں طوفان ”بورس” کے نتیجے میں صدیوں میں ایک بار آنے والی آفات اب معمول بنتی جا رہی ہیں۔
”ال نینو” کے باعث ایمازون اور افریقہ کے کئی خطوں میں خشک سالی نے شدت اختیار کی۔
دنیا بھر کے گلیشیئرز نے 450 گیگا ٹن برف کھو دی، سمندری سطح میں 1.2 ملی میٹر اضافہ ہوا۔
موسمیاتی تبدیلی سے پانی کے ذخائر، زراعت اور روزگار براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔
ماہرین نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ پانی کے انتظام اور ڈیٹا شیئرنگ کو بہتر بنایا جائے۔