
عندلیب اختر
دنیا ایک بار پھر اپنی جڑوں کی طرف لوٹتی دکھائی دے رہی ہے۔ جدید سائنس کی برق رفتار ترقی کے باوجود اب عالمی برادری اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگی ہے کہ صحت اور فلاح و بہبود کا مکمل تصور روایتی علم کے بغیر ادھورا ہے۔ دہلی میں عالمی ادار صحت (ڈبلیو ایچ او) کے زیراہتمام منعقد ہونے والی دوسری عالمی کانفرنس برائے روایتی طب نے اسی سوچ کو عملی شکل دیتے ہوئے ایک مشترکہ عالمی لائحہ عمل پر اتفاق کیا ہے۔
دو روزہ اس کانفرنس کا عنوان تھا ”توازن کی بحالی: صحت اور فلاح و بہبود کا علم اور عمل“، جس کے اختتام پر منظور کیے گئے ”دہلی اعلامیہ“ کو عالمی صحت کے نظام میں ایک اہم سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے۔ اس اعلامیے میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ محفوظ، مؤثر اور شواہد پر مبنی روایتی طب کو دنیا بھر کے صحت کے نظاموں کا باقاعدہ حصہ بنایا جائے گا تاکہ بنی نوع انسان کو اس کے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل ہو سکیں۔
کانفرنس میں دنیا کے 100 سے زائد ممالک کے وزرائے صحت، سائنس دانوں، طبی ماہرین، مقامی و قبائلی علم کے حامل افراد، جدید ٹیکنالوجی کے ماہرین اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس عالمی اجتماع نے روایتی طب کو ماضی کی یادگار یا غیر سائنسی متبادل کے بجائے ایک زندہ، متحرک اور ترقی پذیر علم کے طور پر پیش کیا۔
دہلی اعلامیہ کے اہم نکات میں روایتی طب کے شعبے میں سرمایہ کاری بڑھانے، کثیر الجہتی تحقیق کو فروغ دینے اور عالمی ادار? صحت کی روایتی ادویات سے متعلق لائبریری کو وسعت دینے کے فیصلے شامل ہیں۔ اعلامیے میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ محفوظ اور معیاری ادویات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ عوامی اعتماد کو یقینی بنایا جائے۔ ثابت شدہ مفید روایتی طریقہ? علاج کو بنیادی صحت کی نگہداشت، رہنما اصولوں، معیارات اور طبی عملے کی تربیت کے ساتھ مربوط کیا جائے گا۔
عالمی ادار? صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ روایتی طب نہ تو ماضی کی کوئی باقیات ہے اور نہ ہی ترقی سے محروم کوئی متبادل۔ ان کے بقول یہ ایک مشترکہ انسانی ورثہ، زندہ سائنس اور صحت کی مساوی سہولیات تک رسائی کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مضبوط صحت کے نظام اور پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں روایتی طب اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ یہ کانفرنس اس بات کا ثبوت ہے کہ روایتی علم اور جدید سائنس ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک دوسرے کے معاون ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق عالمی ماہرین کے درمیان ہونے والی گفتگو نے مشترکہ تحقیق، ضابطہ سازی، تربیت اور علم کے تبادلے کے نئے راستے کھولے ہیں، جو روایتی طب کو دنیا بھر میں زیادہ محفوظ اور قابلِ اعتماد بنائیں گے۔
وزیر اعظم مودی نے کانفرنس کے نتائج سے ہم آہنگ کئی عملی اقدامات کا اعلان کیا، جن میں یوگا کی تربیت سے متعلق ڈبلیو ایچ او کی تکنیکی رپورٹ کا اجرا اور دہلی میں عالمی ادار? صحت کے جنوب مشرقی ایشیائی دفتر کا افتتاح شامل ہے۔ ان کے مطابق یہ دفتر تحقیق، ضابطہ کاری اور استعداد سازی کے لیے ایک عالمی مرکز کے طور پر کام کرے گا۔
کانفرنس کے دوران روایتی طب کی ڈیجیٹل لائبریری کے اجرا کا اعلان بھی کیا گیا، جو سائنسی شواہد، پالیسی دستاویزات اور روایتی علم کو ایک ہی پلیٹ فارم پر یکجا کرے گی۔ ڈاکٹر ٹیڈروز کے مطابق یہ لائبریری نہ صرف معلومات کا ذخیرہ ہو گی بلکہ دانشورانہ ملکیت کے تحفظ، مقامی برادریوں کے حقوق کے احترام اور فوائد کی منصفانہ تقسیم کو بھی یقینی بنائے گی۔

کانفرنس میں محض نظری گفتگو پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ قابلِ پیمائش اور عملی اقدامات پر بھی توجہ دی گئی۔ 24 ممالک کے وزرائے صحت نے روایتی طب میں جدت، سرمایہ کاری، پالیسی سازی اور ضابطہ کاری پر تبادلہ خیال کیا، جس کے نتیجے میں واضح اور وقت سے مشروط وعدے سامنے آئے۔ ان وعدوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے عالمی ادار? صحت نے ”روایتی طب پر تزویراتی و تکنیکی مشاورتی گروپ“ کے قیام کا اعلان کیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل نے عالمی سطح پر روایتی طب کے فروغ میں انڈیا کے کردار کی بھرپور تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ ”ایک زمین، ایک صحت“ کا تصور روایتی طب کے بنیادی اصولوں، یعنی توازن، احتیاط اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگی، سے گہری مماثلت رکھتا ہے۔ ان کے مطابق انڈیا نے روایتی طب کو ورثے سے نکال کر شواہد پر مبنی عملی نظام میں ڈھالنے میں عالمی قیادت کا مظاہرہ کیا ہے۔دہلی میں ہونے والا یہ عالمی اجتماع اس بات کی علامت ہے کہ دنیا اب محض مکالمے سے آگے بڑھ کر عمل کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ دہلی اعلامیہ نے روایتی طب کو ایک مشترکہ حیاتی و ثقافتی ورثے کے طور پر دوبارہ متعارف کرواتے ہوئے محفوظ، مؤثر، منصفانہ اور پائیدار
صحت کی عالمی جدوجہد کو ایک نئی سمت دے دی ہے۔
عالمی سطح پر صحت کے فروغ کے لیے بڑے بڑے وعدے اور اعلانات تو کثرت سے کیے جاتے ہیں، مگر زمینی حقائق اکثر ان دعوؤں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ وسائل کی غیر مساوی تقسیم، کمزور صحت کے نظام، اور پالیسیوں پر سست عمل درآمد ان وعدوں کو عملی شکل دینے میں بڑی رکاوٹ بنتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں بنیادی طبی سہولیات تک رسائی آج بھی ایک چیلنج ہے۔ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی اعلانات کو قومی ترجیحات، بجٹ اور مؤثر نگرانی کے نظام کے ساتھ جوڑا جائے تاکہ صحت کے وعدے محض کاغذی نہ رہیں بلکہ عوامی زندگی میں حقیقی بہتری لا سکیں۔
دہلی اعلامیہ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے مکالمے سے عمل کی طرف واضح پیش رفت کا عندیہ دیا ہے۔ ”روایتی طب پر تزویراتی و تکنیکی مشاورتی گروپ“ کا قیام اس بات کی امید دلاتا ہے کہ کیے گئے وعدوں پر نظر رکھی جائے گی اور پیش رفت کا باقاعدہ جائزہ لیا جائے گا۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ عالمی اعلانات تبھی مؤثر ہوتے ہیں جب قومی سطح پر ٹھوس پالیسیاں اور بجٹ مختص کیے جائیں۔
روایتی طب اگر سائنسی تحقیق، شفاف ضابطہ کاری اور عوامی مفاد کے تحت آگے بڑھے تو یہ عالمی صحت کے نظام کو زیادہ منصفانہ، پائیدار اور انسان دوست بنا سکتی ہے۔ دہلی اعلامیہ ایک درست سمت کی نشاندہی ضرور کرتا ہے، مگر اس سمت میں مسلسل اور دیانت دارانہ پیش رفت ہی اس کی اصل کامیابی کا معیار ہو گی۔
AMN
