farmer old
old farmer

جاوید اختر
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ دنیا بھر میں زرعی شعبے سے وابستہ نوجوانوں کی تعداد میں 2005 سے 2021 کے دوران 10 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ کمی صرف ایک عددی گراوٹ نہیں بلکہ ایک گہرے عالمی مسئلے کی نشاندہی ہے جو خوراک کی پیداوار، دیہی معیشت، اور آئندہ نسلوں کے لیے روزگار کے مواقع کو شدید متاثر کر سکتا ہے۔


یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب دنیا کو موسمیاتی تبدیلی، خوراک کی قلت، اور بڑھتی ہوئی آبادی جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان حالات میں زرعی شعبے میں نوجوانوں کی شمولیت ناگزیر ہو چکی ہے، لیکن بدقسمتی سے انہیں زمین، مالیاتی وسائل، اور پالیسی سازی میں مساوی شرکت کے مواقع میسر نہیں۔ اس وقت دنیا میں 15 تا 24 سال کی عمر کے 1.3 ارب نوجوان موجود ہیں، جن میں سے تقریباً نصف دیہی علاقوں میں مقیم ہیں۔ خاص طور پر کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد روزگار کی تلاش میں ہے، لیکن ان میں سے بہت سے زرعی شعبے میں باوقار مواقع نہ ہونے کے باعث دوسرے پیشوں کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔
ایف اے او کے مطابق ان نوجوانوں میں سے 20 فیصد سے زائد ایسے ہیں جنہیں نہ تو باقاعدہ ملازمت حاصل ہے، نہ ہی وہ کسی تعلیمی یا تربیتی پروگرام میں شامل ہیں۔ یہ نوجوان ”NEET” (نہ تعلیم، نہ تربیت، نہ ملازمت) کیٹیگری میں آتے ہیں، اور ان میں بڑی تعداد لڑکیوں کی ہے جنہیں سماجی، معاشی اور ثقافتی رکاوٹوں کا بھی سامنا ہے۔ اس صورتحال کے پیشِ نظر، یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگر ان نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں تو عالمی جی ڈی پی میں 1.5 ٹریلین امریکی ڈالر کا اضافہ ممکن ہے، جس میں سے تقریباً 670 ارب ڈالر صرف زرعی غذائی شعبے سے حاصل ہو سکتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نوجوانوں کی زراعت میں عدم دلچسپی کی ایک بڑی وجہ زمین تک محدود رسائی ہے۔ بہت سے نوجوان خود زمین کے مالک نہیں ہوتے اور والدین یا بزرگوں کی زمین پر کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، مالیاتی نظام تک رسائی، قرضوں کا حصول، انشورنس، اور دیگر بنیادی زرعی سہولیات نوجوانوں کے لیے محدود یا غیر دستیاب ہیں۔ ان کے پاس نہ تو مطلوبہ سرمایہ ہوتا ہے اور نہ ہی جدید زرعی آلات اور ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی تربیت۔
رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ زیادہ تر نوجوان زرعی مزدوری یا کم اجرت والے کاموں میں مصروف ہیں، جو نہ صرف غیر یقینی ہوتے ہیں بلکہ ان میں ترقی کا امکان بھی نہایت کم ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، 91 فیصد نوجوان خواتین اور 83 فیصد نوجوان مرد زرعی شعبے میں ایسے روزگار سے وابستہ ہیں جو نہایت کم آمدنی دیتے ہیں اور ان کا مستقبل غیر یقینی ہوتا ہے۔ ان عوامل کی وجہ سے نوجوانوں کی شہری مراکز کی جانب نقل مکانی بڑھ رہی ہے، جس سے دیہی علاقوں میں مزدوروں کی قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی بھی اس شعبے پر منفی اثر ڈال رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق تقریباً 395 ملین نوجوان ایسے زرعی علاقوں میں رہتے ہیں جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث زمین کی زرخیزی کم ہو رہی ہے اور پانی کی قلت، سیلاب، خشک سالی جیسے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف پیداوار متاثر ہو رہی ہے بلکہ نوجوانوں کا اعتماد بھی اس شعبے پر کم ہوتا جا رہا ہے۔
ایف اے او کی رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ نوجوانوں کو زرعی شعبے میں واپس لانے کے لیے فوری اور دیرپا اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان میں سب سے اہم قدم انہیں زرعی ٹریننگ، ڈیجیٹل مہارت، اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنا ہے تاکہ وہ زراعت کو ایک باوقار اور فائدہ مند پیشہ سمجھ سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، انہیں بینکوں اور مالیاتی اداروں سے قرض، سبسڈی، اور انشورنس جیسی سہولتوں تک آسان رسائی دی جانی چاہیے۔
مزید یہ کہ پالیسی سازی میں نوجوانوں کو شامل کیا جانا چاہیے تاکہ ان کی آواز سنائی دے اور ان کی ضروریات کو پیشِ نظر رکھ کر زرعی منصوبے ترتیب دیے جا سکیں۔ موجودہ وقت میں پالیسی ساز ادارے نوجوانوں کی شمولیت کو اکثر رسمی طریقے سے نمٹاتے ہیں، جو مؤثر نتائج نہیں دے پاتے۔ غیر رسمی انجمنوں، شراکتی اداروں اور مقامی سطح پر کام کرنے والی تنظیموں کے ذریعے نوجوانوں کو بااختیار بنایا جا سکتا ہے تاکہ وہ زرعی فیصلوں میں بھرپور کردار ادا کریں۔
ایف اے او کے ڈائریکٹر جنرل کو ڈونگ یو نے کہا ہے کہ نوجوان صرف کسان نہیں بلکہ زرعی غذائی نظام کے ہر مرحلے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، چاہے وہ پیداوار ہو، پراسیسنگ، مارکیٹنگ یا خدمات کی فراہمی۔ ان کے مطابق اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں خوراک کا نظام پائیدار اور شفاف ہو، تو نوجوانوں کی شمولیت کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ ایف اے او نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ نوجوانوں کے ساتھ اور ان کے لیے کام میں مزید اضافہ کرے گا تاکہ ان کی آواز کو سنا جا سکے اور انہیں ایک محفوظ، باوقار اور مستحکم مستقبل فراہم کیا جا سکے۔
یہ رپورٹ ہمیں باور کراتی ہے کہ نوجوانوں کو زرعی شعبے میں واپس لانے کے لیے صرف اعداد و شمار کافی نہیں بلکہ عملی اقدامات، مالیاتی سپورٹ، جدید تعلیم، اور سیاسی ارادہ درکار ہے۔ اگر دنیا اس مسئلے پر بروقت توجہ دے، تو نہ صرف خوراک کی عالمی قلت سے بچا جا سکتا ہے بلکہ دیہی معیشت کو بھی ایک نئی زندگی دی جا سکتی ہے۔