دنیا کی نصف آبادی کو اب بھی پینے کا صاف پانی میسرنہیں

اے ایم این
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی تازہ ترین رپورٹ اور طبی جریدے دی لینسیٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی نصف آبادی کو اب بھی پینے کے صاف پانی، نکاسی آب اور صحت صفائی (واش) کی سہولیات تک رسائی نہیں ہے۔ڈبلیو ایچ او میں ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی اور صحت کے شعبے کی ڈائریکٹر ڈاکٹر ماریا نیئرا نے کہا ہے کہ جنگوں، ادویات کے خلاف مزاحمت، ہیضے کی وباؤں کے دوبارہ نمودار ہونا اور موسمیاتی تبدیلی سے لاحق طویل مدتی خطرات کے سبب ‘واش’ سے متعلق بڑھتے ہوئے طبی خطرات پہلے ہی دکھائی دے رہے ہیں جن سے نمٹنے کے لئے سرمایہ کاری کی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ 20 برس میں ‘واش’ سے متعلق خدمات کی فراہمی میں بہتری دیکھی گئی ہے لیکن یہ پیش رفت غیریکساں اور ناکافی ہے۔
بیماریوں کا بوجھ
”پینے کے آلودہ پانی اور نکاسی آب اور صحت و صفائی کی ناقص سہولیات سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا بوجھ: 2019 کا جائزہ” اُس برس ڈبلیو ایچ او کے 183 رکن ممالک میں آلودہ پانی، نکاسی آب اور صحت و صفائی کے مسائل سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے بوجھ سے متعلق تخمینے پیش کرتا ہے۔
یہ جائزہ مختلف خطوں، وہاں لوگوں کی عمر اور جنس کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا گیا ہے۔ ان تخمینوں کی بنیاد اسہال، سانس کے شدید مسائل، کم غذائیت اور مٹی سے منتقل ہونے والے کیڑوں سیلاحق ہونے والی بیماریوں پر ہے۔ اس بوجھ میں اسہال کا کردار سب سے نمایاں ہے جو دنیا بھر میں ایک ملین سے زیادہ اموات اور خرابی صحت، معذوری اور قبل از وقت اموات کی صورت میں 55 ملین برسہائے زندگی کے نقصان کا باعث بنتا ہے۔ اس کے بعد ہاتھوں کی ناقص صفائی سے ہونے والی سانس کی شدید بیماریوں کا نمبر آتا ہے جن سے سالانہ 356,000 اموات ہوتی ہیں اور 17 ملین برسہائے زندگی کا نقصان ہوتا ہے۔
بچوں کی اموات
پانچ سال سے کم عمر بچوں میں ‘واش’ کی غیرمحفوظ سہولیات کے باعث سالانہ 395,000 اموات ہوتی ہیں اور 37 ملین برسہائے زندگی کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ بیماریاں دنیا بھر میں ہونے والی مجموعی اموات کا 7.6 فیصد اور اس عمر میں خرابی صحت، معذوری اور قبل از وقت اموات کی صورت میں ضائع ہونے والے برسہائے زندگی کا 7.5 فیصد ہیں۔اس میں اسہال سے 273,000 اور سانس کی شدید بیماریوں سے ہونے والی 112,000 اموات بھی شامل ہیں۔ یہ بیماریاں دنیا بھر میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی اموات کی دو بڑی وجوہات ہیں۔
احتیاطی تدابیر
ڈبلیو ایچ او نے ‘واش’ سے متعلق بیماریوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لئے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے اداروں، کثیرفریقی شراکت داروں، نجی شعبے اور سول سوسائٹی کے اداروں کی مدد سے درج ذیل اقدامات کریں:
‘واش’ کو سبھی کیکے لئے حقیقت بنانے کی غرض سے اقدامات کی رفتار میں بنیادی طور پر تیزی لائی جائے۔ بہتری کے لئے کوششوں میں غریب ترین اور انتہائی پسماندہ لوگوں پر توجہ دی جائے۔ قومی سطح پر نگرانی کے نظام کو محفوظ طریقے سے خدمات کی بہم رسانی کے حوالے سے ضرورت مند آبادیوں کے بارے میں بہتر معلومات کے مطابق ترتیب دیا جائے۔ ڈبلیو ایچ او میں پانی، نکاسی آب، صفائی اور صحت کے یونٹ کے سربراہ بروس گورڈن کا کہنا ہے کہ یہ بات واضح ہے کہ صاف پانی، نکاسی آب اور صفائی کی خدمات تک ناکافی رسائی سے خاص طور پر غیرمحفوظ آبادیوں کو صحت کا نمایاں خطرہ لاحق ہے جسے روکا جا سکتا ہے۔رپورٹ میں بیان کردہ ان خدمات کے طبی فوائد بہت زیادہ ہیں۔ اس سلسلے میں انتہائی ضرورت مند لوگوں کو ترجیح دینا ناصرف اخلاقی طور پر لازمی ہے بلکہ یہ کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں بہت بڑی آبادی اور اعلیٰ آمدنی والے ملکوں میں پسماندہ گروہوں میں بیماریوں کے غیرمتناسب بوجھ سے نمٹنے کی کنجی ہے۔AMN