اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ایک نئی اہم رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر میں ہر چھ میں سے ایک فرد بانجھ پن کا شکار ہے اور ایسے لوگوں کی قابل استطاعت علاج تک رسائی ناکافی ہے۔

REPRESENTATIVE PHOTO

AMN WEB DESK

بانجھ پن مرد و خواتین دونوں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ ایک تولیدی کیفیت ہے جو 12 ماہ یا اس سے زیادہ عرصہ تک باقاعدہ ‘غیرمحفوظ’ جنسی عمل کے باوجود حمل ٹھہرنے میں ناکامی کا نام ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے اس حوالے سے نئے تفصیلی جائزے مرتب کرنے کے لیے 1990 سے 2021 تک بانجھ پن پر تمام متعلقہ جائزوں کا تجزیہ کیا۔ اس تحقیق کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ 17.5 فیصد بالغ آبادی کو اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی بانجھ پن کا تجربہ ضرور ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کا کہنا ہے کہ بلند متوسط اور کم آمدنی والے ممالک میں یہ شرح ”یکساں” ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہے کہ ”اس رپورٹ سے ایک اہم حقیقت سامنے آتی ہے کہ بانجھ پن طبقات میں تفریق نہیں کرتا۔ متاثرہ افراد کی بڑی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے بانجھ پن کے علاج تک رسائی بڑھانے اور یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ صحت سے متعلق تحقیق اور پالیسی سازی میں اس مسئلے کو نظرانداز نہیں ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کو اولاد کے حصول کے لیے موثر اور قابل استطاعت طریقے میسر آئیں۔”

‘طبی غربت کا شکنجہ’

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ بانجھ پن کے پھیلاؤ کے باجود اس کی تشخیص اور علاج، جیسا کہ ‘اِن وائٹرو فرٹیلائزیشن’ (آئی وی ایف) کے لیے زیادہ مالی وسائل میسر نہیں ہیں اور مریض یہ طریقہ علاج اختیار کرنے کی مالی استطاعت نہیں رکھتے۔

بہت سے لوگ جیسے تیسے یہ اخراجات برداشت کرتے ہیں اور اکثر اس کے تباہ کن ثانوی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ 

سال بھر کی تنخواہ

جنسی اور تولیدی صحت و تحقیق سے متعلق ڈبلیو ایچ او کی ڈائریکٹر ڈاکٹر پاسکل ایلوٹے کا کہنا ہے کہ لاکھوں لوگوں کو بانجھ پن کا علاج کرانے پر طبی اخراجات کی مد میں تباہ کن قیمت ادا کرنا پڑی اور اکثر ایسے لوگ ‘طبی غربت کے شکنجے’ میں پھنس گئے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق امیر ممالک کے مقابلے میں غریب ترین ممالک میں لوگ اپنی آمدنی کا بڑا حصہ تولیدی صحت پر خرچ کرتے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او نے کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں بانجھ پن کے علاج پر اٹھنے والے اخراجات سے متعلق علیحدہ سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کا حوالہ بھی دیا ہے جس کے لیے ادارے نے مالی مدد بھی فراہم کی۔ اس رپورٹ میں دیے گئے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئی وی ایف کے ایک مرحلے پر اٹھنے والے اخراجات فرد کی اوسط سالانہ آمدنی سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔

صنفی مساوات کا عنصر

ڈاکٹر ایلوٹے نے کہا کہ ”بہتر پالیسیوں اور سرکاری سطح پر مالی وسائل کی فراہمی سے بانجھ پن کے علاج تک رسائی میں نمایاں بہتری لانے اور غریب ترین گھرانوں کو غربت سے تحفظ دینے میں مدد مل سکتی ہے۔

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ مالی مشکلات سےہٹ کر بانجھ پن کا تعلق ‘پریشانی و بدنامی’ اور ازدواجی تشدد کے خطرے میں اضافے سے بھی ہے۔

دنیا بھر میں بانجھ پن کے لوگوں کی صحت پر کثیرالجہتی منفی اثرات کے ہوتے ہوئے ایلوٹے نے اسے عالمگیر صحت میں ترجیح بنانے کے لیے کہا۔ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق ”بانجھ پن کا علاج جنسی اور تولیدی صحت کا ایک بنیادی حصہ ہے اور بانجھ پن کو ختم کر کے صںفی عدم مساوات میں بھی کمی لائی جا سکتی ہے۔”

معلومات کا فقدان

دنیا بھر میں بانجھ پن کے علاج کی خدمات ہی ناکافی نہیں ہیں بلکہ اس حوالے سے مناسب تحقیق کا بھی فقدان ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے بہت سے ممالک میں بانجھ پن سے منسلک معلومات کی ”مسلسل” کمی کو بھی واضح کیا۔

ادارے کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کا ازالہ کرنے کے لیے قومی سطح پر بانجھ پن کے حوالے سے بہتر معلومات کی دستیابی ممکن بنائی جائے اور یہ معلومات لوگوں کی عمر اور اس بیماری سے متاثر ہونے کی وجوہات کی بنیاد پر ترتیب دی جائیں تاکہ لوگوں کو ان کی مخصوص کیفیات کے مطابق علاج اور اس مرض کی روک تھام میں مدد مل سکے۔