Maulana Kaleem Siddiqui

اترپردیش کی یوگی ادیتیہ ناتھ حکومت کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کے ذریعہ عالمی شہرت یافتہ بھارتی مبلغ مولانا کلیم صدیقی کو گرفتار کیے جانے پر بھارت میں بیشتر مسلم تنظیموں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ تاہم ان کی گرفتاری پر سیکولر سیاسی جماعتوں کی جانب سے مکمل خاموشی پر سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں۔

مولانا کلیم صدیقی کومنگل 21 ستمبر کی رات کواترپردیش کے شہر میرٹھ سے اپنے گاوں پھلت جاتے ہوئے یوپی پولیس نے تبدیلی مذہب مخالف قانون کے تحت گرفتار کرلیا تھا۔بعد میں ایک عدالت نے انہیں 14دنوں کے لیے پولیس تحویل میں دے دیا۔ اسی قانون کے تحت گزشتہ جون میں بھارتی مبلغ عمر گوتم اور ان کے ایک ساتھی مفتی جہانگیر قاسمی کو بھی گرفتار کیاگیا تھا، وہ اب بھی جیل میں ہیں۔

مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری پر مسلم تنظیموں نے سخت ردعمل کااظہار کرتے ہوئے اسے بھارتی آئین اور قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔

مولانا کلیم صدیقی وہ نویں شخص ہیں جنہیں اتر پردیش پولیس نے مبینہ تبدیلی مذہب ایکٹ کے تحت گرفتار کیا ہے۔اسے آئندہ اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے حکمران بی جے پی کا ایک اور ‘آزمودہ حربہ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

بھارتی مسلمانوں کی مذہبی اور سماجی تنظیموں کے وفاق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے کہا کہ اترپردیش کی یوگی حکومت نے مولانا کلیم صدیقی کو گرفتار کرکے ایک ساتھ کئی پیغامات دیے ہیں: ”ایک پیغام تو یہ ہے کہ بھارتی آئین نے شہریوں کو آزادی، مذہب کو ماننے اور اس کی تبلیغ و اشاعت کی خواہ جتنی بھی اجازت دے رکھی ہو، موجودہ حکومت کے فیک ایجنڈے کے تحت کم از کم مسلمانوں کو تو اس کی اجازت نہیں ہے۔” انہوں نے کہا کہ دراصل ”بھارتی آئین کو بری طرح سے پامال کیا جارہا ہے۔”

نوید حامد کا کہنا تھا کہ دوسرا پیغام ہے: ”آپ کی خواہ ہندوتوا کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ کے ساتھ ہی رسم و راہ کیوں نہ ہواس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ آپ کو بھارتی دستور کے تحت حاصل حقوق مل بھی جائیں گے۔ تیسرا اور سب سے اہم پیغام یہ ہے کہ بی جے پی اترپردیش میں ہونے والے آئندہ اسمبلی انتخابات ہر حال میں جیتنا چاہتی ہے۔‘‘

نوید حامد کا مزید کہنا تھا، ”یہ دنیا کی واحد حکومت ہے جو اکثریتی طبقے کے اندر اقلیت کے تعلق سے خوف و ہراس پیدا کرکے اقتدار میں رہنا چاہتی ہے۔وہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کا زہریلا پروپیگنڈا کرسکتی ہے تاکہ برادران وطن میں خوف و ہراس پیدا ہو۔”

طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا نے بھی مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری کو یوپی انتخابات سے قبل فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کی کوشش قرا ردیا۔متعدد مسلم سیاسی رہنماؤں نے بھی مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔

دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے مولانا صدیقی کی گرفتاری کو سیاسی داؤ پیچ قراردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے آئین کے مطابق تمام لوگوں کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اس کی تعلیمات کو عام کرنے کا حق ہے اور مولانا پر تبدیلی مذہب کے جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ سراسر غلط ہیں۔

مولانا کلیم صدیقی پر کیا الزامات ہیں؟
اترپردیش کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پولیس (امن و قانون) پرشانت کمار نے دعویٰ کیا کہ مولانا صدیقی کا بھارت کے سب سے بڑے ”غیر قانونی” تبدیلی مذہب کے ریکٹ سے براہ راست تعلق ہے۔

پرشانت کمار نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ مولانا کلیم صدیقی تعلیمی اور سماجی تنظیموں کی آڑ میں پورے ملک میں بڑے پیمانے پر غیر قانونی تبدیلی مذہب کی سرگرمیو ں میں ملوث تھے اور انہیں بیرونی ملکوں سے مالی امداد مل رہے تھے۔”

مولانا صدیقی جامعہ امام ولی اللہ کے نام سے ایک ٹرسٹ چلاتے ہیں جس کا مقصد سماجی ہم آہنگی پیدا کرنا اور مذہب تبدیل کر کے مسلمان ہونے والوں کو ایک ساتھ جوڑنا ہے۔

اے ٹی ایس نے اپنے ایک بیان میں کہا، ”مولانا صدیقی اتحاد انسانیت کا پیغام دینے کی آڑ میں جنت اور جہنم کا ذکر کر کے لوگو ں کے ذہنوں میں خوف اور لالچ پیدا کرتے تھے اور انہیں اسلام قبول کرنے کے لیے آمادہ کرتے تھے اور جو لوگ مسلمان ہوجاتے تھے انہیں دیگر لوگوں کا مذہب تبدیل کرانے پر زور دیتے تھے۔”

اے ٹی ایس کے انسپکٹر جنرل جی کے گوسوامی کا کہنا تھا کہ مولانا کلیم صدیقی اپنی کتابوں کے ذریعہ، جو آن لائن اور آف لائن دستیاب ہیں، لوگوں کو مذہب اسلام کی طرف مائل کرتے تھے اور لوگوں کوبتاتے تھے، ”اگر دنیا میں شریعت کے مطابق نظام قائم ہوجائے تو ہر ایک کو انصاف مل جائے گا۔”انہوں نے بتایا کہ مولانا کلیم صدیقی کی تقریروں کی درجنوں ویڈیو یو ٹیوب چینل پر بھی موجود ہیں اوران کے ایک لاکھ سے زائد سبسکرائبرز ہیں۔