AMN
فرانسیسی دوا ساز کمپنی سنوفی کے چیف ایگزیکیٹو پال ہڈسن کے ایک بیان نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔ ہڈسن نے بلومبرگ نیوز کو دیے
اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ کووڈ انیس کے خلاف ویکسین پہلے امریکی شہریوں کو ملنی چاہیے کیونکہ ان کی حکومت نے اس کی تیاری میں سرمایہ کاری کی۔ سنوفی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ چونکہ امریکا نے اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے سرمایہ کاری میں پہل کی اور رسک لیا، پہلا حق بھی انہی کا ہے۔ اس پر نہ صرف فرانسیسی حکومت بلکہ کئی غیر سرکاری تنظیموں نے بھی برہمی کا اظہار کیا ہے۔
کورونا وائرس اب تک دنیا بھر میں قریب تین لاکھ سے زائدافراد کی جان لے چکا ہے ۔ عالمی وبا کے باعث دنیا کے بیشتر ممالک میں مکمل یا جزوی پابندیاں نافذ ہیں۔ صنعتیں بری طرح متاثر ہو چکی ہیں اور بے روزگاری ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہے۔ دنیا کو درپیش طبی، سماجی اور سیاسی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک طرف جہاں عالمی سطح پر یکجہتی پر زور دیا جا رہا ہے وہیں مختلف حصوں میں مختلف حکمت عملی بھی سامنے آ رہی ہے۔
دوا ساز کمپنی سنوفی کے چیف ایگزیکیٹو پال ہڈسن کے بیان کی کئی حلقوں میں مذمت جاری ہے۔ فرانسیسی نائب وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ صرف معاشی وجہ بیان کر کے کسی ایک کو خاص ترجیح دینا ناقابل قبول بات ہے۔
امدادی تنظیم آکسفیم کی فرانسیسی شاخ نے بھی سنوفی کے ارادوں کی مذمت کی ہے۔ اس بارے میں جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ صورت حال اس بات کی ضرورت پر زور دیتی ہے کہ مستقبل میں بھی مہلک امراض کے علاج کے حوالے سے قانون سازی درکار ہے تاکہ ان کی منصفانہ بنیادوں پر دنیا بھر میں تقسیم ممکن ہو سکے۔ ڈیڑھ سو کے قریب موجودہ اور سابق عالمی لیڈران، طبی ماہرین اور اہم شخصیات نے ایک تحریر میں زور دیا ہے کہ ویکسین کو دنیا بھر میں ہر شخص کے لیے بلا معاوضہ فراہم کیا جائے۔
سنوفی برطانیہ کی کمپنی گلیکسو اسمتھ کلائن کے ساتھ ایک ویکسین پر کام کر رہی ہے۔ فی الحال اس اشتراک سے بننے والی کسی ممکنہ ویکسین کے کلینیکل ٹرائل بھی شروع نہیں ہوئے۔ متعلقہ اہلکاروں کا کہنا ہے کہ جلد سے جلد بھی کوئی ویکسین سال کے آخر تک تیار ہو گی۔ اس منصوبے کی فنڈنگ مشترکہ طور پر امریکی محکمہ صحت سے بھی جاری ہے۔
خےال رہے کہ کورونا ویکسین پر متعدد دوا ساز کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ کچھ محققین کورونا ویکسین تیار کرنے کے بارے میں تھوڑا زیادہ پر امید ہیں، دوسروں کا خیال ہے کہ اس میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ آخر کبھی نہ کبھی ایسا وقت آئے گا جب مطلوبہ ویکسین میسر ہو گی۔ لیکن کون سا ملک سب سے پہلے اسے حاصل کر سکے؟ اس کے لیے شدید دبا¶ میں تیاریاں اس وقت جاری ہیں۔ ماہر صحت ایلونا کک بوش کا کہنا ہے ،”فی الحال اس طرح کے معاملے میں منصفانہ تقسیم کے لیے کوئی بین الاقوامی قواعد موجود نہیں ہیں۔“
ویکسین کی تقسیم کا معاملہ فی الحال مارکیٹ کی سکت اور طلب پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ صحت سے متعلق ماہر اقتصادیات ژورگن وسیم نے کہا، ”ایسے قوی خدشات ہیں کہ سب سے پہلے مغربی یورپ، کینیڈا، جاپان اور امریکا کو یہ ویکسین فراہم کی جائے گی کیونکہ یہ ممالک زیادہ قیمت ادا کرسکتے ہیں۔ دواسازی کے شعبے میں یہ مسئلہ ہمیشہ موجود رہا ہے۔”
جرمنی کی ڈوئسبرگ۔ایسن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے صحت کے شعبے کے ماہر معاشیات ژورگن وسیم کا کہنا ہے کہ تاریخی ویکسین کے حوالے سے دوا سازی کی صنعت کی تاریخ بہت روشن نظر نہیں آتی۔ یہ متعدد بار دیکھا گیا ہے کہ ویکسین کی فراہمی میں رکاوٹیں کارپوریٹ قیمتوں کا تعین کرنے کی پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہوئیں۔ لیکن ایسے کیسز کو ثابت کرنا مشکل ہے، ژورگن وسیم کہتے ہیں، ”بالواسطہ الزام تو یہ ہے کہ کارپوریشنوں نے مصنوعی طور پر ویکسین کی مقدار محدود رکھ کر ان کی قیمتیں بہت زیادہ رکھیں۔ نیز کچھ مخصوص ویکسین معاشی مراعات کی کمی کی وجہ سے کبھی تیار ہی نہیں کی گئیں۔“
جنیوا میں یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی مطالعہ اور ترقی میں صحت کے پروگرام سے منسلک الونا ککبوش کی رپورٹ کے مطابق،”ایبولا ویکسین کی بنیادی اجزائے ترکیب موجود تھیں، لیکن اس کے لیے میسر رقم کم ہونے کی وجہ سے اسے تیار نہیں کیا جا سکا۔“
پروفیسر ژورگن وسیم ویکسین کی تیاری کے عمل میں نجی شعبے کو شامل کرنے کے واضح فوائد دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،”ان کے پاس متعدد مسابقتی انیشیئیٹیو ہوتے ہیں، جن میں سے کچھ کامیاب بھی ہوسکتے ہیں، کیونکہ ویکسین تیار کرنا بہت مہنگا اور خطرناک عمل ہوتا ہے۔“
موجودہ صورتحال کے مطابق اس وقت عالمی صحت کی فلاح و بہبود کا دارومدار ویکسین تیار کرنے والی چار بڑی فرموں اور متعدد چھوٹی بائیو ٹیکنالوجی کمپنیوں کے رحم و کرم پر ہے۔ دنیا بھر میں ویکسین کے لگ بھگ 80 منصوبے جاری ہیں۔ زیادہ تر بڑی چھوٹی دوا ساز کمپنیوں کا تعلق امریکا، کینیڈا، چین اور جرمنی سے ہے۔
کووڈ 19 کے حوالے سے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرش نے کہا،”ویکسین کسی ایک ملک یا ایک خطے کے لیے نہیں بلکہ ایک ایسی ویکسین جو سستی، محفوظ، موثر اور آسانی سے عالمی سطح پر دستیاب ہو ہر ایک کے لیے، ہر جگہ میسر ہونی چاہیے۔