اے ایم این
مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے گزشتہ دنوں زراعت کے شعبے میں ڈرون کے استعمال کے لیے معیاری آپریٹنگ پروسیجر (SOP) جاری کیا۔ اس کے تحت ڈرونز کا استعمال زمین اور فصلوں سے متعلق کیڑے مار ادویات اور دیگر غذائی ادویات کے چھڑکاؤ کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ مرکزی وزیر تومر نے کہا کہ زراعت کے شعبے میں ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال وقت کی ضرورت ہے اور اس سے کسانوں کو فائدہ ہوگا۔ ایس او پی کو جاری کرتے ہوئے تومر نے کہا کہ 2014 سے حکومت کی پالیسیاں 2022 تک کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے پر مرکوز ہیں۔انہوں نے کہا کہ فارمر پروڈیوسر آرگنائزیشن اور ایگریکلچر انفراسٹرکچر فنڈ چھوٹے کسانوں کی زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں لائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں پہلی بار ٹڈی دل کے حملوں سے بچاؤ کے لیے ڈرون کا استعمال کیا جائے گا۔ حکومت زراعت کے شعبے میں نئی ٹیکنالوجی متعارف کرانے کی مسلسل کوشش کر رہی ہے تاکہ اس شعبے کی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی دونوں میں اضافہ ہو سکے۔
کیڑے مار دوا چھڑکنے کے لیے ڈرون کے ایس او پی میں درکار قانونی اقدامات، پرواز کی اجازت، فاصلے کی پابندیاں، وزن کی درجہ بندی، گنجان آبادی والے علاقوں میں پابندیاں، ڈرون کی رجسٹریشن، سیکیورٹی انشورنس، پائلٹ کا سرٹیفکیٹ، آپریشنل پلان، فلائٹ ایریا، موسم کے لیے ایس او پی جیسی اہم چیزیں۔، درمیانی اور پوسٹ آپریشن کی حیثیت شامل کی گئی ہے۔ وزارت نے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے زرعی شعبے میں ڈرون کے استعمال کے لیے ایس او پی تیار کیا ہے۔
تومر نے ”موٹے اناج کی پیداوار، ڈبہ بندی اور قدرافزودگی کے لیے مشینری“ کے عنوان سے ایک کتابچہ بھی جاری کیا۔ اس موقع پر تومر نے کہا کہ زراعت ہماری ترجیح ہے، اس لیے چاہے وہ تحقیق ہو یا اسکیموں کی شروعات، حکومت کی پہلی ترجیح زراعت کو فروغ دینا اور کسانوں کی مالی حالت کو بہتر بنانا ہے۔ آج زراعت کے شعبے میں بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔ جیسے کسانوں کی حالت کو ٹھیک ٹھاک رکھنا، نئی نسل کو راغب کرنا اور پیداواری لاگت کو کم کرکے کسانوں کے معاوضے میں اضافہ کرنا۔ اس کے لیے زرعی شعبے میں تکنیکی معاونت بہت ضروری ہے، حکومت اس سمت میں مسلسل کوششیں کر رہی ہے۔
مرکزی وزیر نے کہا کہ زراعت کے شعبے میں نئے چیلنجوں کے سامنے آنے کے امکانات ہیں، اس لیے وقتاً فوقتاً حکمت عملی میں تبدیلی کے ساتھ طریقہ کار میں بھی تبدیلی ضروری ہے۔ زرعی شعبے کی بات کریں تو ٹیکنالوجی کی مدد کے بغیر ہم مستقبل میں اپنے اہداف حاصل نہیں کر پائیں گے، اس لیے اسکیموں کو ٹیکنالوجی سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی بھی ہمیشہ ٹیکنالوجی کی حمایت پر زور دیتے ہیں اور خود بھی ان پر کام کرتے ہیں۔ بڑی اسکیموں کی بات کرتے ہوئے، وزیر اعظم کسان سمان ندھی کے تحت آج تقریباً 2.5 لاکھ کروڑ روپے کسانوں کے کھاتوں میں پہنچ چکے ہیں، جس پر کسی قسم کا سوال اٹھائیجانے کاامکان نہیں ہے۔ذیلی آبپاشی (مائیکرو اِریگیشن) پروجیکٹ کے بھی اچھے نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ قدرتی کاشتکاری جیسے موضوعات پر کام کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک نے نینو یوریا بنایا اور کسان جلد ہی نینو ڈی اے پی کے فوائد حاصل کر سکیں گے۔ حکومت نے زرعی شعبے میں ڈرون ٹیکنالوجی کو قبول کر لیا ہے۔ پچھلی بار جب ٹڈی دل کا حملہ ہوا تھا، اس وقت ڈرون کے استعمال کی ضرورت محسوس کی گئی تھی، تب سے ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال وزیر اعظم جناب مودی کی رہنمائی میں مرکزی حکومت کے مکمل تعاون سے ہمارے سامنے ہے۔ زراعت میں لاگت کو کم کرنے اور کیڑے مار ادویات کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے کسانوں کو ڈرون سے وسیع فوائد حاصل ہوں گے۔
جناب تومر نے کہا کہ جب بھی ہم کوئی نئی اسکیم شروع کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اس کے فائدے آخری شخص تک پہنچیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ڈرون کی اسکیم تیار کی جا رہی تھی تو اس میں عام کسانوں، عام گریجویٹس کو بھی شامل کیا گیا تھا، تاکہ چھوٹے کسانوں کے ذریعہ ڈرون کا استعمال ممکن بنایا جاسکے۔ اس سمت میں سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے انہوں نے کرشی وگیان کیندرز(کے وی کیز) کو مزید کارآمد بنانے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ زرعی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں گریجویٹ/پوسٹ گریجویٹ زرعی طلباء کے لیے بیداری سیشن کا انعقاد کیا جانا چاہیے، جس کے ذریعے وہ روزگار حاصل کرنے کے علاوہ وہ اس قابل بھی بن سکیں کہ اپنی زمین پر کاشتکاری کریں۔ ڈرون کے فوائد عام آدمی تک پہنچانے کے لیے منصوبہ بنایا جائے۔
جناب تومر نے کہا کہ وزیر اعظم جناب مودی کی پہل پر، اقوام متحدہ کے اعلان کے مطابق، سال 2023 کو دنیا بھر میں موٹے اناج کے بین الاقوامی سال (شری انّ) کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ شری انّ کو مختلف تقریبات میں ترجیح اور پہچان مل رہی ہے۔ اس سے ہمارے لیے باعث فخر ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری ذمہ داری بھی بڑھ گئی ہے۔ اگر ملک اور دنیا میں شری انّ کی مانگ اور کھپت بڑھے گی تو پیداواری صلاحیت کے ساتھ ساتھ پروسیسنگ اور ایکسپورٹ کو بھی بڑھانا ہوگا۔
ڈرونز کے لیے مالی امداد – زراعت کیش میں مشینوں کیاستعمال سے متعلق ذیلی مشن کے تحت، آئی سی اے آر اداروں، کے وی کیز، ایس اے یوز، دیگر ریاستی/مرکزی حکومت کے زرعی ادارے اور زرعی سرگرمیوں میں مصروف حکومت ہند پی ایس یوز کو 100 فیصد کی شرح سے مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ کسانوں کے کھیتوں میں ڈرون کے مظاہرے کے مقصد کے لیے ہنگامی اخراجات کے علاوہ ڈرون کی قیمت (10 لاکھ روپے فی ڈرون تک)۔ ایف پی اوز کو کسانوں کے کھیتوں میں استعمال کے لیے ڈرون خریدنے کے لیے 75 فیصد کی شرح سے مالی امداد دی جاتی ہے۔ ڈرون کے استعمال کے ذریعے زرعی خدمات فراہم کرنے کے مقصد کے لیے، سی ایچ سیز کی طرف سے ڈرون کی اصل قیمت کے 40 فیصدکی شرح سے فارمرز کوآپریٹو سوسائٹیز، ایف پی اوز اور دیہی کاروباریوں کو ڈرون کی خریداری کے لیے مالی امداد دی جاتی ہے، جو کہ زیادہ سے زیادہ 4 لاکھ روپے ہوتی ہے۔ سی ایچ سی قائم کرنے والے زرعی گریجویٹس کو ڈرون کی قیمت کے 50 فیصد کی شرح سے 5 لاکھ روپے تک مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ انفرادی طور پر کام کرنے والے چھوٹے اور معمولی کسانوں، ایس سی۔ ایس ٹی کسانوں، خواتین کسانوں، شمال مشرقی ریاستوں کے کسانوں کو بھی ڈرون کی لاگت کا 50 فیصدملے گا جو زیادہ سے زیادہ 5 لاکھ روپے کے ساتھ مشروط ہے جب کہ دیگر کسان ڈرون کی قیمت، زیادہ سے زیادہ 4 لاکھ روپے تک ہوسکتی ہے، 40 فیصد کے حساب سے امداد کے اہل ہیں۔