غزہ میں متواتر لڑائی اور بمباری کے باعث انسانی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ہنگامی امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ کار مارٹن گرفتھس نے علاقے میں شہریوں کی خیریت کے بارے شدید خدشات کا اظہار کیا ہے۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں عالمگیر امدادی جائزے کے اجرا پر بات کرتے ہوئے مارٹن گرفتھس نے کہا ہے کہ غزہ کی صورتحال بدترین ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں امن کے وقفے ممکن بنانے کی کوششیں بہت اہم ہیں۔
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے مطابق غزہ میں ہزاروں لوگوں کو خوراک، پانی، پناہ، طبی امداد اور تحفظ کی اشد ضرورت ہے۔ ان لوگوں کی بڑی تعداد جنوبی غزہ کے بہت سے علاقوں سے نقل مکانی کر کے رفح میں مقیم ہے۔
علاقے میں تشدد کی صورت حال پر ‘اوچا’ کے تازہ ترین جائزے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نکاسی آب کا نظام متاثر ہونے کے باعث بڑی تعداد میں لوگ کھلے مقامات پر رفع حاجت پر مجبور ہیں۔ اس طرح علاقے میں بیماریاں پھیلنے کا خطرہ ہے۔
غزہ میں طبی حکام کے مطابق 7 اکتوبر کو لڑائی شروع ہونے کے بعد 18 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں 70 فیصد تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اب تک 49 ہزار لوگ زخمی ہو چکے ہیں۔
‘تخلیقی سفارت کاری’ کی ضرورت
مارٹن گرفتھس نے جنگ زدہ علاقے میں امن کے وقفے لانے کی کوششوں کے لیے قطر کی ‘تخلیقی سفارت کاری’ کا شکریہ ادا کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جنوبی غزہ میں عسکری کارروائیوں کی شدت اور تنازع کے ہمسایہ ممالک تک پھیلنے کے خدشات کی وجہ سے ان کوششوں کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔
مقبوضہ فلسطینی علاقے کے لیے اقوام متحدہ کی امدادی رابطہ کار لین ہیسٹنگز نے کہا ہے کہ اسرائیل پر حماس اور دیگر فلسطینی مسلح گروہوں کے دہشت گرد حملوں سے شروع ہونے والا تنازع ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ان حملوں میں ہلاکتوں اور لوگوں کو یرغمال بنائے جانے کے ساتھ جنسی تشدد کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔
ان حملوں کے جواب میں اسرائیل کی کارروائی کے نتیجے میں غزہ کا انسانی بحران شدید ہوتا جا رہا ہے جہاں 22 لاکھ میں سے 19 لاکھ بے گھر ہو چکے ہیں۔ متواتر لڑائی اور ایندھن و امداد کی شدید قلت کے باعث امدادی کارروائیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔
امدادی مشکلات
‘اوچا’ نے کہا ہے کہ گزشتہ چند روز سے بیرونی امداد وصول کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی کارکردگی میں نمایاں کمی آئی ہے۔ غزہ میں ٹرکوں کی کمی، مواصلاتی انقطاع اور جنگ کے باعث امدادی کارکنوں کی رفح سرحد تک رسائی میں مشکلات اس کی بڑی وجہ ہیں۔ اس وقت رفح سرحد سے بہت معمولی مقدار میں امداد سامان غزہ پہنچ رہا ہے۔
‘اوچا’ نے بتایا ہے کہ ہفتے کے اختتام پر روزانہ ڈیڑھ لاکھ لٹر ایندھن مصر سے غزہ آ رہا تھا۔ یہ 67 ہزار لٹر کی گزشتہ روزانہ اوسط سے زیادہ مقدار ہے تاہم علاقے میں اہم جگہوں پر خدمات کی فراہمی برقرار رکھنے کے لیے کافی نہیں۔ ان میں ہسپتال، ایمبولینس گاڑیاں، پانی کی فراہمی و نکاسی آب کی تنصیبات اور بے گھر لوگوں کی پناہ گاہیں شامل ہیں۔
اتوار کو کھانا تیار کرنے کے لیے استعمال ہونے والی 45 ٹن گیس مصر سے غزہ پہنچی۔ یہ یکم دسمبر کو سات روزہ جنگ بندی ختم ہونے کے بعد علاقے میں گیس کی پہلی فراہمی تھی۔
لین ہیسٹنگز نے کہا ہے کہ قابض طاقت کی حیثیت سے علاقے میں صحت و صفائی اور لوگوں کو خوراک اور طبی خدمات کی فراہمی یقینی بنانا اسرائیل کی ذمہ داری ہے۔
طبی مراکز پر حملے جاری
‘اوچا’ کے مطابق ہفتے کے اختتام پر غزہ بھر میں کئی طبی مراکز اور ان کا عملہ حملوں کی زد میں آئے۔ ایسے بیشتر حملے شمال میں جبالیہ کے قریب ہوئے جہاں زیرمحاصرہ ال اعودہ ہسپتال میں فرائض انجام دینے والے دو طبی کارکن لڑائی کی زد میں آ کر ہلاک ہو گئے۔
ہفتے کو عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے زیرقیادت فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی کے قافلے نے غزہ شہر کے الاہلی عرب ہسپتال میں طبی سازوسامان پہنچایا۔ اس کارروائی میں 19 شدید زخمیوں کو بھی ہسپتال سے دوسری جگہوں پر منتقل کیا گیا۔
‘اوچا’ نے بتایا ہے کہ غزہ کے شمال میں ہزاروں افراد اب بھی پناہ گاہوں میں موجود ہیں تاہم ان تک امداد کی رسائی بہت مشکل ہو گئی ہے۔
© UNICEF/Eyad El Baba بچوں کو غزہ کے الشفاء ہسپتال سے دوسری جگہوں پر منتقل کیا جا رہا ہے (فائل فوٹو)۔
صحت امن سے مشروط
‘اوچا’ کے مطابق جنوبی علاقے خان یونس میں یورپین ہسپتال کے قریب اسرائیلی فوج نے ایک ایمبولینس کو فائرنگ کا نشانہ بنانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ اس واقعے میں دو طبی کارکن زخمی ہو گئے۔ اتوار کو ہسپتال کے اردگرد علاقہ متواتر بم باری کی زد میں رہا جس کی وجہ سے درجنوں زخمیوں کو علاج کی فراہمی معطل ہو گئی۔
‘اوچا’ نے غزہ کے حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد علاقے میں کم از کم 286 طبی کارکن ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس عرصہ میں 57 ایمبولینس گاڑیوں کو بھی حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔
اتوار کو ‘ڈبلیو ایچ او’ کے ایگزیکٹو بورڈ نے غزہ میں امداد کی فراہمی اور لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے اتفاق رائے سے ایک قرارداد کی منظوری دی تھی۔
قیدیوں پر تشدد
‘اوچا’ نے بتایا ہے کہ گزشتہ ہفتے کے اختتام پر شمالی غزہ میں اسرائیلی فوج نے پناہ گاہوں سے سیکڑوں مردوں اور لڑکوں کو گرفتار کر لیا۔ اطلاعات کے مطابق ان لوگوں کو برہنہ کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بنیادی ضروریات سے محروم رکھا گیا۔
اس واقعے کی تصاویر سوشل میڈیا پر بھی زیرگردش ہیں۔
‘اوچا نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کے مطابق ان میں سے جن افراد پر حماس سے رابطوں کا شبہ تھا انہیں تفتیش کے لیے اسرائیل منتقل کیا گیا جبکہ باقی لوگوں کو رہا کر دیا گیا ہے