عندلیب اختر
تقریباً 80 سال کے بعد اب عالمگیر مالیاتی نظام متروک، غیرفعال اور غیرمنصفانہ صورت اختیار کر گیا ہے، اور اب اس میں 21ویں صدی کی دنیا کی ضروریات پوری کرنے کی اہلیت نہیں رہی۔ ’یہ ملٹی پولر دنیا ہے جس میں معیشتیں اور مالیاتی منڈیاں ایک دوسرے سے پوری طرح مربوط ہیں۔ اس کے ساتھ یہ دنیا ارضی سیاسی کشیدگیوں اور بڑھتے ہوئے منظم خدشات سے بھی دو چار ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور جنرل اسمبلی کے صدر نے ترقی پذیر دنیا کے اربوں لوگوں پر قرضوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے عالمی مالیاتی نظام میں فوری اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔مستحکم قرضوں کے موضوع پر جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل نے ترقی پذیر معیشتوں پر قرض کے تباہ کن اثرات کے بارے میں بتایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرضوں کی فراہمی اور ان کی واپسی کے موجودہ طریقہ سے بڑھ کر عالمی مالیاتی نظام کے ناکام ہونے کی کوئی اور مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ گزشتہ چار برس قرضوں کے حوالے سے تباہ کن تھے۔ سیکرٹری جنرل نے کہا کہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے بوجھ کے باعث بہت سے ملک اپنے لوگوں کی بہبود پر خرچ کرنے کے قابل نہیں رہتے۔
غیرفعال، غیرمنصفانہ
اقوام متحدہ کے مطابق 2023 میں دنیا بھر میں ممالک کے سرکاری قرضوں کا حجم 313 ٹریلین ڈالر تھا اور ترقی پذیر ممالک میں اس حوالے سے صورتحال خاص طور پر خراب دیکھی گئی۔ 25 ترقی پذیر ممالک میں محصولات سیحاصل ہونے والی آمدنی کا 20 فیصد بیرونی قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوا۔ ان قرضوں پر انتہائی بلند شرح سود کے بوجھ سے 3.3 ارب لوگ یا دنیا کی 40 فیصد آبادی متاثر ہوئی۔ بیشتر غریب ممالک نے قرضوں پر جو سود ادا کیا وہ ان کے صحت یا تعلیم کے بجٹ سے زیادہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں متروک، غیرفعال اور نامنصفانہ مالیاتی نظام ان ممالک کو معاشی تحفظ دینے اور ان کی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہے۔جنرل اسمبلی کے صدر کی جانب سے بلایا گیا یہ اجلاس اقوام متحدہ کے زیراہتمام منائے جا رہے ‘ہفتہ استحکام’ کے سلسلے میں ہونے والی پہلی اعلیٰ سطحی بات چیت ہے۔ اس ہفتے کے دوران پائیدار نقل و حمل، سیاحت اور پائیدار توانائی پر بھی اجلاس ہوں گے۔
بڑھتی ہوئی عدم مساوات
جنرل اسمبلی کے صدر ڈینس فرانسس نے اجلاس سے خطاب میں امیر اور غریب ممالک کے مابین بڑھتی ہوئی عدم مساوات کا تذکرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت دنیا کی 76 فیصد دولت 10 فیصد آبادی کے ہاتھ میں ہے۔ 2030 تک اندازاً 600 ملین لوگ پس ماندہ ہوں گے۔ اگرچہ 2030 تک دنیا میں ٹریلین ڈالر کی دولت کا مالک پہلا فرد سامنے آ جائے گا لیکن غربت کا خاتمہ کرنے میں مزید 229 سال درکار ہوں گے۔ دولت مند شمالی اور ترقی پذیر جنوبی دنیا کے مابین فرق بڑھ رہا ہے جہاں رہنے والے لوگوں کے لیے مواقع محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے نوجوانوں، خواتین، معذور افراد اور دیہی آبادی پر اس عدم مساوات کے اثرات کا تذکرہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اس صورتحال میں بہتری نہ لائئ گئی تو دنیا کی بہت بڑی آبادی ترقی کے ثمرات سے محروم رہ جائے گی۔
قرضوں میں سہولت
انتونیو گوتیرش نے ترقی پذیر ممالک کو قرضوں کے بوجھ سے نجات دلانے کے اقدامات کی ضرورت کو واضح کیا۔ انہوں نے کہا کہ اب ‘ایس ڈی جی’ کے حصول کی رفتار تیز کرنے کے پروگرام پر عملدرآمد کا آغاز ہو جانا چاہیے۔اس اقدام کا مقصد دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کو پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے سالانہ 500 ارب ڈالر مہیا کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابتداً کثیرفریقی ترقیاتی بینکوں (ایم ڈی بی) کے ذریعے سستے اور طویل مدتی مالیاتی وسائل کی فراہمی میں اضافہ کرنا ہو گا۔ بین الاقوامی قرض دہندگان کو غریب ممالک کے لیے قرضوں کی ادائیگی میں وقفوں کی سہولت دینا ہو گی اور عالمی مالیاتی اداروں کو ان کے لیے قرض کی ادائیگی آسان بنانا ہو گی۔
درکار اصلاحات
سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ عالمی مالیاتی نظام کو بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اس میں قرضوں کے اجرا اور وصولی کے عمل میں شفافیت لانا، مقامی کرنسی میں قرضوں کی فراہمی میں اضافہ کرنا اور قرضوں کے حوالے سے نئے طریقہ ہائے کار وضع کرنا شامل ہے۔
سب سے بڑھ کر، عالمی مالیاتی نظام اور اس کے زیراہتمام لیے گئے فیصلوں میں ترقی پذیر ممالک کی نمائندگی بڑھانا ہو گی۔ ان ممالک کو فیصلہ سازی میں نمائندگی درکار ہے اور وہ اس کے حق دار بھی ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد بنایا جانے والا بین الاقوامی مالیاتی نظام ترقی پذیر ممالک کے لئے عالمگیر تحفظ فراہم کرنے کے اپنے مقصد میں ناکام ہو گیا ہے۔ ’چند تبدیلیوں کے ساتھ بھی بنیادی طور پر یہ نظام اُس وقت کی سیاسی اور معاشی طاقت کی حرکیات کا عکاس ہے جب آج کے تین چوتھائی ممالک بریٹن ووڈز مذاکرات میں شریک نہیں تھے۔‘
اس بحران کا دور رس اصلاحات کے بغیر کوئی حل نہیں ہے اور یہ کہ تبدیلی تیزرفتار سے نہیں آئے گی کیونکہ یہ اختیار اور سیاسی ارادے کا معاملہ ہے۔ ’لیکن ہم اس معاملے میں درکار بھرپور اصلاحات کے لئے کام کرتے ہوئے آج ترقی پذیر اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کی ہنگامی ضروریات کی تکمیل کی غرض سے فوری قدم اٹھا سکتے ہیں۔‘ امیر ممالک قرضوں کی ادائیگی میں سہولت دینے کا ایک واقعتاً موثر اور تیز رفتار نظام قائم کر سکتے ہیں جس سے قرض دار ممالک کو ادائیگیاں معطل کرنے کی سہولت میسر آئے اور انہیں طویل مدتی شرائط اور کم قیمت پر قرضہ مل سکے، جن میں مخصوص مسائل کے حامل متوسط آمدنی والے ممالک بھی شامل ہیں جنہیں موسمیاتی تبدیلی جیسے مسئلے سے نمٹنے کے لئے قرض درکار ہو سکتا ہے۔