پیغمبر اسلام کی توہین کی مرتکب بی جے پی کی رہنما نوپر شرما کے خلاف بیان دینے والے درگاہ کے خادم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ سلمان چشتی کی ایک مبینہ ویڈیو کلپ کے خلاف شکایت درج کی گئی تھی اور پولیس ان کی تلاش میں تھی۔

Indien Nupur Sharma, BJP

بھارتی ریاست راجستھان کے شہر اجمیر میں واقع حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کے ایک خادم سلمان چشتی کو چھ جولائی بدھ کے روز گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان کے خلاف گزشتہ پیر کو یہ شکایت درج کی گئی تھی کہ انہوں نے پیغمبر اسلام کی توہین کرنے والی ہندو قوم پرست جماعت بی جی کی رہنما نوپر شرما کے خلاف اشتعال انگیز بیان دیا تھا۔

پولیس کے مطابق سلمان چشتی نے نشے کی حالت میں اپنی وہ مبینہ ویڈیو بنوائی تھی جس میں انہوں نے نوپر شرما کے خلاف بیان دیا۔ اجمیر کے اسسٹنٹ سپریٹنڈنٹ آف پولیس وکاس سنگوان کا کہنا تھا کہ انہیں خادم محلے میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا،’’انہیں اشتعال انگیز بیان دینے کے لیے گرفتار کیا گیا ہے اور  پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے نشے کی حالت میں وہ ویڈیو بنائی تھی۔ ان سے مزید پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔‘‘  

سلمان چشتی پر الزام کیا ہے؟

چند روز قبل ایک ویڈیو کلپ وائرل ہو ئی تھی، جس میں سلمان چشتی کو مبینہ طور پر یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ”اگر کوئی بھارتیہ جنتا پارٹی کی ترجمان نوپر شرما کا سر قلم کر دے، تو وہ اسے تحفے میں اپنا گھر پیش کر سکتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پیغمبر اسلام کی توہین کرنے کے لیے وہ نوپور شرما کو گولی مار دیتے۔

  اس مبینہ ویڈیو میں وہ مزید کہتے ہیں،”آپ کو تمام مسلم ممالک کو جواب دینا ہے۔ یہ میں راجستھان کے اجمیر سے کہہ رہا ہوں اور یہ پیغام حضرت خواجہ بابا کے دربار کا ہے۔‘‘

حالانکہ اجمیر درگاہ کے دیوان زین العابدین علی خان کے دفتر اور بعض دیگر خادموں نے، اس ویڈیو کی مذمت کی تھی اور کہا کہ اجمیر میں صوفی خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک مثال ہے۔

اس بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ خادم سلمان چشتی نے ویڈیو میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اسے درگاہ کا پیغام نہیں سمجھنا چاہیے۔ مزید یہ کہ ’’یہ ریمارکس ایک فرد واحد کے بیانات ہیں، جو انتہائی قابل مذمت ہیں۔‘‘

اجمیر میں صوفی خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ بر صغیر میں کافی مقبول ہے اور بھارت میں مسلمان اور ہندو سبھی مذاہب کے لوگ اس کی زیارت کو جاتے ہیں۔ 

 Ajmer Sharif Dargah Schrein in Indien

پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز بیان پر تشدد اور گرفتاریاں

واضح رہے کہ بی جے پی کی ایک ترجمان نوپر شرما ٹی وی پر ایک مباحثے کے دوران، توہین رسالت کی مرتکب ہوئیں تھیں، جس کے خلاف مسلم تنظیموں اور گروپوں میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔  

اس سے پہلے، 17 جون کو اجمیر کی درگاہ کے مرکزی دروازے پر بھی مبینہ طور پر ایک اور اشتعال انگیز تقریر کرنے کے سلسلے میں چار افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔

ریاست راجستھان ہی میں کچھ دنوں پہلے دو مسلم نوجوانوں نے ادے پور شہر میں کام کرنے والے ایک ہندو درزی کو یہ کہہ کر قتل کر دیا تھا کہ اُس نے پیغمبر کے خلاف نوپر شرما کے بیان کی حمایت کی تھی۔

 قتل کرنے کے بعد ایک ویڈیو میں دونوں نے اپنی شناخت محمد ریاض اور غوث محمد کے نام سے کی تھی۔ بعد میں دونوں کو گرفتار کر لیا گیا اور وہ جیل میں ہیں۔

حقائق اجاگر کرنے والی بھارت کی ایک معروف ویب سائٹ ’’آلٹ نیوز‘‘ کے ایک ایڈیٹر محمد زبیر نے نوپور شرما کے بیانات کو اجاگر کیا تھا اور کچھ روز قبل پولیس نے انہیں بھی متعدد الزامات کے تحت گرفتار کر لیا ہے۔ نوپور شرما کے خلاف بھی کئی مقدمات درج ہوئے، تاہم اس کے باوجود بی جے پی کی رہنما کو ابھی تک پولیس نے گرفتار نہیں کیا ہے۔

 گزشتہ ہفتے بھارت کی سپریم کورٹ نے بھی اسی مسئلے پر ایک کیس کی سماعت کے دوران نوپو شرما کی سرزنش کی تھی اور حکام کو ہدایت دی تھی کہ اس معاملے میں جیسے دوسروں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے ان کے خلاف بھی کیس درج ہونا چاہیے۔ 

 عدالت نے کہا تھا کہ ان کی “بے قابو زبان” نے ملک میں آگ لگانے کا کام کیا ہے اور اس وقت “ملک میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کے لیے وہ اکیلی ذمہ دار ہیں۔” عدالت عظمی کے ان سخت بیانات کے باوجود ابھی تک پولیس نے ان سے پوچھ گچھ تک نہیں کی ہے۔

اس کے برعکس بی جے پی کی حکومتوں نے ان مسلمانوں کے خلاف سخت ترین کارروائیاں کی ہیں جنہوں نے نوپور شرما

کے بیانات کے خلاف احتجاج اور مظاہرہ کرنے کی کوشش کی۔