اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا بچوں کی زندگیوں پر خاصے اثر انداز ہو رہے ہیں اور اس عمل میں بچوں اور نابالغوں کے جنسی استحصال سمیت کئی خطرات سامنے آ رہے ہیں۔

عندلیب اختر
انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور دیگر ڈیجیٹل ایپس آج دنیا بھر میں 2.6 کروڑ بچوں کے لیے دو دھاری تلوار ثابت ہو رہے ہیں۔ بچوں کے درمیان ان کا استعمال بالغوں کے ذریعے انکے جنسی استحصال اور بدسلوکی کو آسان بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے — اسکے ذریعے معلوم اور نامعلوم — اور ساتھیوں کے ذریعے، اور عمر کے لحاظ سے نامناسب مواد تک رسائی آسان ہو گئی ہے۔


اکانومسٹ امپیکٹ (EI)3 کی طرف سے کرایے جانے والے eProtect گلوبل الائنس مطالعہ، 18 سے 20 سال کی عمر کے 5,000 سے زیادہ لوگوں کے تجربات کا تجزیہ کیا ہے جنہوں نے بچپن کے دوران آن لائن جنسی نقصانات کے اپنے تجربات اور ان کی نمائش کو سمجھنے کے لیے بچوں کے طور پر انٹرنیٹ تک باقاعدہ رسائی حاصل کی تھی۔ یہ آن لائن بچوں کے جنسی استحصال اور بدسلوکی کے ممکنہ دائرہ کار، پیمانے اور حرکیات پر ثبوت فراہم کرنے کے لیے چار مختلف نقصانات اور ان کے خطرے کے عوامل کو دیکھتا ہے۔
بچوں کے خلاف آن لائن جنسی نقصانات ہر جگہ ہو رہے ہیں۔ جیسے جیسے انٹرنیٹ تک رسائی پھیلتی ہے، ذاتی موبائل آلات زیادہ عام ہوتے جاتے ہیں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا پھیلاؤ بڑھتا جاتا ہے، نوجوان زیادہ وقت آن لائن گزار رہے ہوتے ہیں۔ وہ تعلقات بنانے اور برقرار رکھنے، اپنی جنسیت کو دریافت کرنے اور وسیع مسائل پر مواد تک رسائی کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کر رہے ہیں۔ وسیع پیمانے پر رسائی کے ساتھ خطرہ آتا ہے: عالمی سطح پر، نصف سے زیادہ جواب دہندگان (54%) نے بچپن میں کم از کم ایک آن لائن جنسی نقصان کا تجربہ کیا تھا۔ بچپن میں آن لائن جنسی نقصان کا سب سے زیادہ تجربہ کرنے والے کو آن لائن جنسی طور پر واضح کچھ کرنے کے لیے کہا جاتا تھا جس سے جواب دہندہ کو تکلیف ہوتی تھی یا وہ ایسا نہیں کرنا چاہتے تھے (34%)، لیکن 10 میں سے تقریباً تین جواب دہندگان (29%) کو بھی بھیجا گیا تھا۔ کسی بالغ یا کسی ایسے شخص کی طرف سے آن لائن جنسی طور پر واضح مواد جو وہ نہیں جانتے تھے۔ اسی فیصد نے ایک ہم مرتبہ، ایک بالغ شخص یا کسی ایسے شخص کا تجربہ کیا تھا جسے وہ نہیں جانتے تھے، ان کی رضامندی کے بغیر ان کی جنسی طور پر واضح تصویر شیئر کرتے تھے۔
بچوں کی فروخت اور جنسی استحصال پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار نے بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی کے نئے آن لائن ہتھکنڈے سامنے آنے پر واضح کیا ہے کہ انٹرنیٹ کو بچوں کے لیے محفوظ بنانے کی غرض سے دنیا کے تمام ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ جامع اور بھرپور تعاون کی ضرورت ہے۔
محفوظ انٹرنیٹ کے عالمی دن کے موقع پر ایک بیان میں خصوصی اطلاع کار ماما فاطمہ سنگھاتے نے کہا ہے کہ انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم بچوں اور نوعمر افراد کے لیے دو دھاری تلوار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس سے انہیں باہمی مثبت رابطوں، خودمختار انسانوں کی حیثیت سے ترقی کرنے اور اپنی جگہ بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ ٹیکنالوجی ان کی عمر کے حوالے سے غیرمناسب مواد کے پھیلاؤ اور بالغ افراد اور اپنے ساتھیوں کی جانب سے انہیں آن لائن جنسی نقصان پہنچانے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ماما فاطمہ بچوں کی فروخت اور ان کے جنسی استحصال کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار ہیں۔ انہوں نے زور دیا ہے کہ انٹرنیٹ کی ترقی و ضابطہ کاری اور نئی ڈیجیٹل اشیا کی تیاری میں بچوں کے حقوق کو مرکزی اہمیت دینا ہو گی۔
آن لائن استحصال میں اضافہ
انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل اشیا تک محض رسائی ان سے بچوں اور نوعمر افراد کو ہونے والے فوائد جانچنے کا پیمانہ نہیں ہے۔ ‘وی پروٹیکٹ گلوبل الائنس’ کے زیراہتمام 2023 میں بچوں کو درپیش آن لائن خطرات کے جائزے اندازہ ہوتا ہے کہ 2019 تک بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق آن لائن مواد میں 87 فیصد اضافہ ہو چکا تھا۔متعدد جائزوں، اشاعتوں اور رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بچوں کو آن لائن بدسلوکی اور استحصال سے ہونے والے نقصان، انہیں لاحق خطرات کی شدت اور انہیں نقصان پہنچانے کے طریقوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہو گیا ہے۔ ان میں بچوں سے جنسی بدسلوکی اور ان کے استحصال پر مبنی مواد، انہیں جنسی مقاصد کے لیے تیار کرنا، آن لائن جنسی ہراسانی، بے تکلفانہ لمحات کی تصاویر کے ذریعے بچوں کا استحصال، جنسی تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے بلیک میل کر کے رقم اینٹھنا اور ٹیکنالوجی کی مدد سے بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی اور استحصالی مواد کا استعمال شامل ہیں۔
نجی شعبہ اور ٹیکنالوجی کی صنعت اپنے دعووں سے برعکس اس مسئلے سے نمٹنے میں خاطرخواہ حد تک قابل اعتبار ثابت نہیں ہوئے۔ سنگین نوعیت کے پختہ تعصبات، بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی نشاندہی کے لیے پروگرامنگ اور نگرانی کے سافٹ ویئرز میں خامیاں، بچوں سے جنسی بدسلوکی اور ان کے استحصال میں ملوث عناصر کے خلاف کاررروائی میں ناکامی اور ٹیکنالوجی کمپنیوں میں لوگوں کے تحفظ پر مامور ٹیموں اور کارکنوں کی تعداد میں کمی جیسے اقدامات اس کی نمایاں مثال ہیں۔
ماما فاطمہ نے کہا ہے کہ اس معاملے میں عالمی سطح پر سیاسی عزم و ترجیح کے ساتھ آئی سی ٹی اور نئی ٹیکنالوجی کا اشتراک قابل ستائش اقدامات ہیں۔ تاہم ان مسائل سے نمٹنے کے لیے قومی، علاقائی و عالمی سطح پر قوانین سازی و ضابطہ کاری میں انسانی حقوق سے متعلق کئی خدشات بھی سامنے آتے ہیں۔ ضابطہ کاری کے لیے انسانی حقوق، صنف اور بچوں سے متعلق حساسیت پر مبنی طریقہ ہائے کار تشکیل دینے میں ممالک کا ناکافی ارتباط اس حوالے سے خاص طور پر قابل ذکر ہے۔
مشترکہ اقدامات کی ضرورت
اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کارنے واضح کیا کہ ریاستوں اور کمپنیوں کو اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے باہم مل کر کام کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ محفوظ آن لائن ماحول کو فروغ دینے کے لیے ڈیجیٹل اشیا کے حوالے سے اخلاقی ضابطے وضع کرنے میں متاثرہ بچوں اور متعلقہ فریقین کی آواز سننا بھی لازم ہے۔ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے حوالے سے سیکرٹری جنرل کے مشاورتی ادارے کو سونپی جانے والی ذمہ داریوں کا خیرمقدم کیا ہے۔ اس ادارے نے مصنوعی ذہانت کے انتظام و ارتباط کے حوالے سے ایک بین الاقوامی ادارے کے قیام سے متعلق سفارشات پیش کرنا ہیں۔ ان کا کہنا ہے اس معاملے میں اب تک کیے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنانا ضروری ہے۔AMN