تحریر: عندلیب اختر

کپاس محض ایک ریشہ نہیں بلکہ ایک ایسی معیشتی، ثقافتی اور سماجی قوت ہے جو دنیا بھر کے دیہی خاندانوں کی زندگیوں کو ایک ساتھ جوڑتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کے مطابق، دنیا کے 80 سے زیادہ ممالک میں 10 کروڑ سے زائد خاندان اپنی روزی کپاس سے کماتے ہیں۔ لیکن موسمیاتی تبدیلی، پانی کی کمی، زمین کی زرخیزی میں کمی اور منڈی کے اتار چڑھاؤ نے اس سفید سونے کو سنجیدہ خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔

ایف اے او کے ماہرِ معاشیات المامون عمروک کے مطابق “کپاس ایک فصل سے بڑھ کر ایک طرزِ زندگی ہے۔ یہ ہمارے روزمرہ کی معیشت، مقامی ثقافت، اور روزگار کے نظام کو آپس میں بُنتی ہے۔”


کپاس کا عالمی دن اور پائیدار ترقی

ہر سال 7 اکتوبر کو منائے جانے والا کپاس کا عالمی دن اس بات کا اعتراف ہے کہ یہ فصل صرف ملبوسات کے لیے خام مال نہیں بلکہ لاکھوں افراد کے لیے آمدنی، تخلیق، اور ثقافت کی علامت ہے۔ رواں سال “مشترکہ خوشحالی کے لیے پائیدار کپاس” کے عنوان کے تحت یہ دن منایا گیا، جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ کپاس کے شعبے میں چھوٹے کسانوں کی حفاظت، خواتین کی شمولیت، اور ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔

دنیا بھر میں کپاس تقریباً 2.5 فیصد زرعی زمین پر اگائی جاتی ہے، لیکن یہی فصل ٹیکسٹائل صنعت میں 20 فیصد طلب پوری کرتی ہے۔ چین، بھارت، پاکستان، امریکہ، اور برازیل کپاس پیدا کرنے والے پانچ بڑے ممالک ہیں۔ تاہم، کیڑوں کے حملے، پانی کی قلت، اور مصنوعی ریشوں سے بڑھتی مسابقت اس شعبے کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔


بھارت میں کپاس: طاقت اور پریشانی کا ملا جلا منظر

بھارت دنیا کا سب سے بڑا کپاس پیدا کرنے والا ملک ہے۔ ملک کے گجرات، مہاراشٹر، تلنگانہ، مدھیہ پردیش اور پنجاب جیسے علاقے کپاس کی زرخیز پٹی کہلاتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں سالانہ تقریباً 330 لاکھ گانٹھ کپاس پیدا کی جاتی ہے، جو دنیا کی کل پیداوار کا 25 فیصد سے زیادہ ہے۔

یہ فصل بھارت کے دیہی معیشتی ڈھانچے کی بنیاد ہے۔ ملک بھر میں 60 لاکھ سے زیادہ کسان براہِ راست کپاس کی کاشت سے وابستہ ہیں جبکہ ٹیکسٹائل، جننگ، سپننگ، اور گارمنٹ سیکٹر میں کروڑوں لوگ بالواسطہ روزگار پاتے ہیں۔

لیکن یہ چمک دھندلا رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں، بے وقت بارشوں، کیڑوں کی وبا (خاص طور پر بول ورم کے حملوں)، اور زرعی لاگت میں اضافے نے کپاس کی پیداوار پر منفی اثر ڈالا ہے۔ 2024 میں بھارت کے کئی علاقوں میں کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں 10 تا 15 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔

اسی کے ساتھ عالمی منڈی میں مصنوعی فائبر کے پھیلاؤ اور روئی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ نے کسانوں کی آمدنی کو غیر یقینی بنا دیا ہے۔ حکومتِ ہند نے منی مل کم سپورٹ پرائس (MSP) میں اضافہ کر کے کسانوں کو کچھ سہارا ضرور دیا ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ دیرپا حل کے لیے جدید ٹیکنالوجی، بہتر بیج، اور پانی کے مؤثر استعمال پر توجہ دینا ضروری ہے۔


پاکستان اور جنوبی ایشیا میں کپاس کا بحران

پاکستان بھی کپاس پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہے، لیکن گزشتہ چند برسوں میں وہاں کی پیداوار تقریباً نصف رہ گئی ہے۔ 2022 کے سیلاب نے سندھ اور پنجاب میں کپاس کی 40 فیصد فصل تباہ کر دی۔ نتیجتاً کپاس کی برآمدات میں زبردست کمی اور ٹیکسٹائل انڈسٹری میں خام مال کی قلت پیدا ہوئی۔

ایف اے او کے تعاون سے شروع کیے گئے کلیئر کاٹن پراجیکٹ کے تحت پاکستان میں ہزاروں کسانوں کو تربیت دی جا رہی ہے تاکہ وہ کم پانی میں زیادہ پیداوار حاصل کر سکیں، اور بچوں و خواتین کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ پائیدار زراعت کو فروغ دیا جا سکے۔


کپاس: کھیت سے فیشن تک

کپاس کا سفر کھیت سے فیشن کی دنیا تک پھیلا ہوا ہے۔ اٹلی، نائجیریا، بھارت اور دیگر ممالک میں فیشن ڈیزائنرز اس قدرتی ریشے کو نئی زندگی دے رہے ہیں۔ رواں سال روم میں ہونے والی ایف اے او کی ایک نمائش میں مختلف ممالک کے ڈیزائنرز نے “کپاس سے تخلیق تک” کے عنوان سے فیشن کلیکشن پیش کیے، جو اس ریشے کی ثقافتی، تخلیقی اور جمالیاتی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔


پائیدار کپاس — مستقبل کی ضمانت

دنیا میں صرف 3.2 فیصد کپاس ہی نامیاتی (آرگینک) طریقے سے اگائی جاتی ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ ابھی پائیداری کے سفر میں طویل راستہ طے کرنا باقی ہے۔ ایف اے او کے مطابق اگر چھوٹے کسانوں کو مالی تحفظ، جدید بیجوں تک رسائی، اور پانی کے بہتر انتظام کی سہولت فراہم کی جائے تو نہ صرف پیداوار بڑھے گی بلکہ روزگار کے مواقع بھی مستحکم ہوں گے۔

کپاس کی معیشت میں خواتین کی شرکت بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دیہی بھارت اور پاکستان میں لاکھوں خواتین جننگ، دھاگا کاتنے، یا کپڑے کی تیاری میں کام کرتی ہیں۔ ان کی محنت نہ صرف گھر کی معیشت بلکہ ملکی برآمدات میں بھی بڑا حصہ ڈالتی ہے۔


کپاس کا دھاگا، زندگی کا دھاگا

کپاس کے دھاگے سے صرف کپڑا نہیں بنتا، بلکہ ایک پوری معیشت، ثقافت، اور معاشرت بُنتی ہے۔ یہ کسان کے پسینے سے لے کر فیشن ڈیزائنر کی تخلیق تک، ہر ہاتھ سے جڑا ہوا ایک رشتہ ہے۔ اگر پائیداری، جدت، اور انصاف پر مبنی پالیسیوں کے ساتھ کپاس کے شعبے کو مضبوط کیا جائے تو یہ نہ صرف دیہی خوشحالی بلکہ عالمی معیشت کی مضبوطی llllllضمانت بن سکتا ہے۔