جاوید اختر

اقو ام متحدہ کے خوراک اور زراعت سے متعلق ادارے (ایف اے او) نے دنیا بھر کے لوگوں سے خوراک کے نقصان اور ضیاع کو روکنے کے لیے اقدامات کی اپیل کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں بھوک اور غذائی قلت کی ایک بڑی وجہ خوراک کا ضیاع ہے۔
ایف اے او نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال 17فیصد خوراک ضائع کردی جاتی ہے۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق اس وقت دنیا بھر کے ممالک حالانکہ تقریباً آٹھ ارب لوگوں کے لیے کافی خوراک پیدا کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود 80کروڑ سے زیادہ افراد اب بھی بھوک کا شکار ہیں اور دو ارب انسانوں کو غذائی قلت کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ایف اے او کا کہناہے کہ خوراک کے ضیاع اور بربادی سے نہ صرف لوگوں کو بھوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ اس سے گرین ہاوس گیسوں میں بھی 8تا10فیصد کا اضافہ ہورہا ہے، جو موسمیاتی مسائل کا سبب بن رہے ہیں۔اقو ام متحدہ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ 3.1 ارب افراد کو صحت بخش غذا مہیا نہیں ہے، تمام ممالک سے خوراک کے ضیاع کے خلاف اقدامات تیز کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔


خوراک کے ضیاع کا نقصان یہ بھی ہے…

ایف اے او کی ڈپٹی ڈائریکٹر نینسی ابورٹو کا کہنا ہے کہ خوراک کے ضیاع کے نتیجے میں پانی، زمین، توانائی، مزدوری او رسرمائے سمیت وہ تمام وسائل ضائع ہوجاتے ہیں جو اسے پیدا کرنے میں صرف ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خوراک کے ضیاع کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو اقوام متحدہ سن 2030 تک بھوک کے خاتمے سے متعلق پائیدار ترقی کے اپنے ہدف کو کبھی حاصل نہیں کرسکے گا۔اقو ام متحدہ کے مطابق خوراک کے ضیاع سے سالانہ اندازاً ایک کھرب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔

ابورٹو کے مطابق غذائی قلت کے باعث ایک جانب لاکھوں بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں تو دوسری طرف ہر تین میں سے ایک بالغ شخص موٹاپے کا شکار ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ غذائیت کی کمیابی کا ایک اور سبب غیر صحت بخش خوراک اور ضروری وٹامنز اور معدنیات کی غذا میں کمی ہے۔

ابورٹو کا کہنا ہے کہ صحت بخش خوراک کی زیادہ قیمت ہونے کے سبب دنیا کے ہر براعظم، علاقے اور ممالک میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے یہ صورت حال مزید سنگین ہو گئی۔ صحت بخش خوراک کے بغیر ہم کبھی بھی بھوک اور غذائیت میں کمی کے مسئلے پر قابو نہیں پا سکتے۔
ہم انفرادی طورپرکیا کرسکتے ہیں؟

ہندوستان میں اب بھی بہت سے افراد روزانہ بھوکے سوتے ہیں لیکن دوسری طرح روزانہ لاکھوں ٹن خوراک ضائع بھی کردی جاتی ہے۔
خوراک کے ضیاع کی ایک عام وجہ انسانو ں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ بھی ہے۔ مثلاً شادیوں اور دیگر تقریبات پر کھانا اتنا زیادہ تیار کیا جاتا ہے اور مہمان کھاتے ہوئے اتنا زیادہ کھانا پلیٹوں میں ڈال لیتے ہیں کہ جب وہ کھایا نہیں جاتا، تو پلیٹوں میں بچا ہوا اور میزبان کی طرف سے تیار کروایا گیا لیکن بچا ہوا زیادہ تر کھانا کوڑے میں پھینک دیا جاتا ہے۔

بحیثیت مجموعی زمین پر انسانی آبادی کے لیے یقینی طور پر کافی مقدار میں دستیاب خوراک کے بہت بڑے حصے کا یہ ایسا ضیاع ہے، جس کی وجہ عام انسانوں کی یہ غیر صحت مندانہ سوچ بنتی ہے”یہ نہ کیا، وہ نہ کیا، تو دنیا کیا کہے گی؟“

ایف اے او نے دنیا بھر میں ہر سال ضائع کر دی جانے والے خوراک کا جو عالمی انڈکس بنایا ہے، اسے فوڈ لاس انڈکس یا ایف ایل آئی کہتے ہیں۔ اس انڈکس کو کم سے کم رکھنے کے لیے جو اہداف مقرر کیے گئے تھے، ان میں سے ایک ہدف بھوک کی شرح کو صفر تک لانے کا بھی تھا، جو
اب تک حاصل نہیں کیا جا سکا۔

’زیرو ہنگر‘ کے تحت دنیا کے تمام انسانوں کو جو نو تجاویز دی گئی تھیں، وہ یہ ہیں:
گھر پر کھانا کھاتے ہوئے پلیٹ میں شروع میں تھوڑا کھانا ڈالیں اور ریستورانوں میں بڑی ڈشیں مل کر کھائیں۔
بچے ہوئے کھانے کو اگلی بار کے کھانے کے لیے رکھ لیں یا اسے ملا کر کوئی نیا کھانا تیار کر لیں۔ شاپنگ کرتے ہوئے صرف اتنی اشیائے خوراک خریدیں، جتنی آپ کو ضرورت ہے۔ ضرورت سے زیادہ خریداری کبھی نہ کریں۔
پھل اور سبزیاں خریدتے ہوئے ان کے خوش نما ہونے پر زور نہ دیں۔ آنکھوں کے لیے غیر خوش نما پھلوں اور سبزیوں میں بھی خوش نما پھلوں اور سبزیوں جتنی ہی غذائیت ہوتی ہے۔ یعنی داغ والے پھل بھی خرید لیا کریں۔
فریج میں اشیائے خوراک اور تیار کھانوں کو ایک سے پانچ ڈگری سینٹی گریڈ ٹمپریچر پر اسٹور کریں تاکہ وہ طویل عرصے تک تازہ اور قابل استعمال رہیں۔
پرانا پہلے اور نیا بعد میں: دودھ، دہی، جام، پنیر، سبزیاں اور پھل وغیرہ، جو کچھ بھی نیا خریدیں، اسے کھانے سے پہلے فریج میں اسی قسم کی پہلے سے رکھی گئی اشیائے خوراک کو پہلے ختم کریں۔

فوڈ انڈسٹری کی تیار کردہ مصنوعات کے قابل استعمال ہونے کی آخری تاریخ کے لحاظ سے use by یا best before کے الفاظ کے سامنے لکھی گئی تاریخوں کے فرق کو سمجھیں۔ ایسی مصنوعات عام طور پر ان پر لکھی گئی آخری تاریخ کے بعد بھی کئی دنوں تک بغیر کسی خطرے کے استعمال کی جا سکتی ہیں۔

گھروں میں کچھ نہ کچھ خوراک ہمیشہ ضائع ہو ہی جاتی ہے۔ اسے اپنے باغیچے کے لیے نامیاتی کھاد بنانے کے لیے استعمال کریں۔
آپ کے گھر میں، جو بھی کھانے تیار کیے جاتے ہیں، انہیں ”شئیرنگ از کئیرنگ“ کے اخلاقی اصول کے تحت دوسروں کے ساتھ بانٹ کر کھائیں۔آج کے بعد اگر آپ نے مثال کے طور پر زیادہ پکے ہوئے کیلے، کچھ کچھ نرم ہو چکے ٹماٹر یا ہلکے مرجھائے ہوئے چھلکوں والے سیب خریدنا اور کھانا شروع کر دیے اور اگر آپ کے گھر میں تازہ پکا ہوا کھانا دو تین مرتبہ تک کھایا جانے لگے، تو سمجھ لیجیے کہ آپ نے دنیا سے بھوک کے خاتمے کے لیے اور خوراک کے ضیاع کے خلاف جنگ میں اپنا انفرادی حصہ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔

(اے ایم این)