UN Secretary-General António Guterres inspects aid supplies in a cargo plane destined for the people of Gaza.

عندلیب اختر
دنیا میں بعض انتہائی خطرناک جگہوں پر لوگوں کی بہت بڑی تعداد کو امدادی خوراک، ادویات، ہنگامی تعلیم اور پناہ کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ ر مقبوضہ فلسطینی علاقے سمیت افغانستان، ہیٹی، سوڈان، یوکرین اوردنیا بھر میں ایسی خطرناک جگہوں پر یہ کام بخوبی انجام دے رہا ہے۔اکتوبر کو اسرائیلی۔فلسطینی تنازع شروع ہونے کے بعد نیویارک میں واقع امدادی امور کے لیے اقوام

متحدہ کے دفتر (او سی ایچ اے) نے فوری طور پر فعال کردار ادا کیا۔ جیسا کہ اقوام متحدہ کے زیراہتمام تمام ہنگامی اقدامات میں ہوتا ہے، ادارہ اس خطے کے موجودہ حالات میں ضرورت مند لوگوں کو زندگی کے تحفظ میں مدد دینے کی کوششوں میں سہولت فراہم کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے مصر میں غزہ کے ساتھ رفح کے سرحدی راستے کا دورہ کیا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ امدادی سامان کے قافلوں کو وقت ضائع کیے بغیر جلد از جلد غزہ پہنچانا ہو گا۔ سیکرٹری جنرل نے رفح سرحد پر غزہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دیوار کے اُس جانب پھنسے لاکھوں لوگ تقریباً دو ہفتوں سے زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ ان کے پاس پانی ہے نہ کھانا، ادویات ہیں نہ ایندھن اور انہیں صرف بمباری کا سامنا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سرحد کے اِس جانب (مصر میں) ان لوگوں کے لیے پانی، خوراک اور ادویات سے بھرے ٹرکوں کے قافلے تیار کھڑے ہیں اور یہی وہ چیزیں ہیں جن کی سرحد سے اس پار غزہ کے لوگوں کو ضرورت ہے۔ یہ قافلے زندگی کے ضامن ہیں۔ یہ غزہ میں بہت سے لوگوں کے لیے زندگی اور موت کے مابین فرق کی حیثیت رکھتے ہیں۔


افغانستان، سوڈان اور غزہ سمیت بہت سی جگہوں پر امداد پہنچانے والے اقوام متحدہ کے متعدد ادارے دنیا بھر میں اپنے نام کے مخففات کے ذریعے جانے جاتے ہیں۔ ان میں اقوام متحدہ کا عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) اور ایسے دیگر مخصوص امدادی ادارے جیسا کہ پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والا ادارہ ‘یو این ایچ سی آر’ اور بچوں کے لیے ادارہ ‘یونیسف’ شامل ہیں۔


اقوام متحدہ یہ کام کیسے کرتا ہے؟
2022 کے دوران دنیا میں ہر 33 افراد میں سے ایک (مجموعی طور پر 242 ملین افراد) کو انسانی امداد درکار تھی اور ایسی بیشتر مدد اقوام متحدہ کے ذریعے آئی۔بحرانوں سے نمٹنے کا مرکز نیویارک میں واقع اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں ہے جو بحرانی حالات سے نمٹنے کے لیے تعینات ٹیم چوبیس گھنٹے دنیا بھر میں ایسی جگہوں پر نظر رکھتی ہے جہاں امداد کی ضرورت پڑ سکتی ہو۔ ان کوششوں میں مدد دینے کے لیے اقوام متحدہ کا عالمی اطلاعاتی شعبہ (ڈی جی سی) ہنگامی ضروریات کو سامنے لاتا اور آن لائن و سوشل میڈیا پر دنیا بھر سے امدادی وسائل کی فراہمی کے لیے اپیل کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور ان کے خصوصی نمائندے ہر تنازع کے اہم کرداروں سے رابطہ کر کے مسئلے کا پُرامن حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی دوران اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور ادارے کا عملہ زمینی صورتحال پر نظر رکھتا ہے، ذرائع ابلاغ کو تازہ ترین حالات سے آگاہ کرتا ہے اور متعلقہ ممالک کے حکام کے ساتھ مل کر بحران زدہ لوگوں کو مدد پہنچانیکے بہترین اور محفوظ ترین طریقوں پر بات چیت کرتا ہے۔


کوپن ہیگن میں یونیسف کا عالمی گودام۔


ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں یونیسف کا عالمی گودام دنیا کا سب سے بڑا امدادی گودام ہے۔ دنیا بھر میں ضرورت مند لوگوں کو بیشتر امداد ڈنمارک میں قائم سہولیات سے فراہم کی جاتی ہے جہاں یونیسف نے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ایک امدادی مرکز قائم کر رکھا ہے جہاں سے دنیا بھر میں امداد کی فراہمی اور اس کے انصرام کا عمل انجام دیا جاتا ہے۔20,000 مربع میٹر سے زیادہ رقبے پر محیط یہ دنیا کا سب سے بڑا امدادی گودام ہے۔یہ گودام ڈنمارک نے عطیہ کیا ہے اور اس میں سامان ذخیرہ کرنے کے 36,000 بڑے تختے ہیں جنہیں خودکار طریقے سے چلنے والی کرینوں کے ذریعے حرکت دی جاتی ہے۔چین، اٹلی، پانامہ اور متحدہ عرب امارات سمیت دنیا بھر میں ایسے دیگر مراکز بھی موجودہ ہیں۔


اقوام متحدہ کے مرکزی فنڈکی اہمیت
ان امدادی امور کی انجام دہی کے لیے مالی وسائل دنیا بھر کے ممالک سے آتے ہیں جو ہنگامی امدادی اقدامات کے لیے اقوام متحدہ کے مرکزی فنڈ (سی ای آر ایف) کے لیے سالانہ بنیادوں پر عطیات بھی مہیا کرتا ہے۔ اس فنڈ کو ‘او سی ایچ اے’ کے زیراہتمام چلایا جاتا ہے اور اب تک اس فنڈ نے 100 سے زیادہ ممالک اور علاقوں میں انسانی زندگی کے تحفظ کے لیے 6 ارب ڈالر سے زیادہ امدادی وسائل مہیا کیے ہیں۔امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کا دفتر بھی ممالک کی جانب سے فراہم کردہ مالی وسائل (سی بی پی ایف) کے ذریعے کام کرتا ہے۔ ان وسائل کو اقوام متحدہ کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ رقم بحران زدہ علاقوں میں کام کرنے والے امدادی اداروں کو فراہم کی جاتی ہے جن میں اقوام متحدہ کے اپنے ادارے، غیرسرکاری تنظیمیں (این جی اوز) اور ریڈ کراس/ہلال احمر کے ادارے و دیگر شامل ہوتے ہیں۔’او سی ایچ اے’ نے اپنے شراکت داروں کو بحران زدہ 47 ملین لوگوں کی امدادی ضروریات پوری کرنے کے لیے 2022 میں ‘سی بی پی ایف’ کے ذریعے ریکارڈ 1.2 ارب ڈالر مہیا کیے۔رواں ہفتے کے آغاز پر ادارے نے غزہ اور مغربی کنارے میں پناہ گزین لوگوں کی مدد کے لیے 5 ملین ڈالر جاری کیے ہیں۔


امداد کی ترسیل
ضرورت مند لوگوں کو کشتیوں، ٹرکوں، ہوائی جہازوں حتیٰ کہ ڈرون طیاروں کے ذریعے بھی امداد پہنچائی جاتی ہے۔ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ امدادی سامان اور کارکن بحران زدہ ممالک میں انتہائی ضرورت مند لوگوں تک کیسے پہنچتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ انہیں اقوام متحدہ کی امدادی فضائی سروس کے ذریعے ان علاقوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ تاہم اس ذریعے سے اسی وقت کام لیا جاتا ہے جب الگ تھلگ علاقوں تک پہنچنے کا کوئی اور ذریعہ دستیاب نہ ہو۔ اس سروس کو مختصراً ‘یو این ایچ اے ایس’ بھی کہا جاتا ہے اور اسے 2003 میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ فضائی سروس ‘ڈبلیو ایف پی’ کے زیراہتمام کام کرتی ہے اور گزشتہ دو دہائیوں سے یہ امدادی کارکنوں اور ہلکے سامان کو بحران زدہ علاقوں میں لے جانے اور واپس لانے کے لیے محفوظ، قابل اعتماد، سستا اور موثر ذریعہ رہی ہے۔


‘یو این ایچ اے ایس’ کے پاس 90 سے زیادہ طیارے اور ہیلی کاپٹر ہیں جو ہر ماہ اوسطاً 33,000 افراد اور تقریباً 300 میٹرک ٹن تک ہلکے امدادی سامان کو دنیا بھر میں 310 جگہوں پر لے جاتے ہیں۔ یونیسف کے مطابق جن علاقوں تک رسائی مشکل ہوتی ہے وہاں ویکسین، ادویات، طبی تشخیصی نمونے، خون اور دیگر اشیا پہنچانے کے لیے ڈرون طیاروں سے بھی کام لیا جا رہا ہے۔ ادارے نے 2016 میں افریقہ میں پہلی امدادی ڈرون راہداری قائم کی تھی۔بحرانی حالات میں فضائی راستے سے امداد کی ترسیل کے لیے اقوام متحدہ متحارب ممالک کے ساتھ امدادی سامان کی محفوظ ترسیل اور کارکنوں کی نقل و حمل کے معاہدے کرتا ہے۔ شام میں امداد کی فراہمی اور بحیرہ اسود کے راستے اناج کی ترسیل کا اقدام اس کی مثال ہیں۔ موخرالذکر اقدام میں روس، ترکیہ اور یوکرین کے ساتھ معاہدہ کیا گیا جس کے نتیجے میں تین براعظموں کے 45 ممالک میں 32 ملین ٹن سے زیادہ خوراک کی برآمد ممکن ہوئی۔
اقوام متحدہ اور بحران زدہ علاقوں میں کام کرنے والے اس کے ادارے ملکی حکام سے امدادی راہداریاں قائم کرنے یا امدادی کارکنوں اور سامان کی انتہائی ضرورت مند لوگوں تک بلارکاوٹ رسائی کے لیے محفوظ راستہ دینے کے لیے تواتر سے درخواست کرتے رہتے ہیں۔

Image


قومی سطح پر جب کوئی ہنگامی صورتحال پیدا ہو تو اقوام متحدہ کے امدادی اور ملکی رابطہ کار لوگوں کو مدد پہنچانے کی کوششوں کو منظم کرتے ہیں اور اس سلسلے میں مقامی حکام کے شانہ بشانہ کام کرتے ہیں۔ تاہم بیشتر امدادی کام اقوام متحدہ کا عملہ اور زیادہ تر قومی عملہ انجام دیتا ہے جو مقامی علاقے سے متعلق علم اور مقامی لوگوں سے رابطوں کے ذریعے اپنا کام کرتا ہے۔ اس عملے کو اکثر بہت بڑے خطرات کا سامنا بھی رہتا ہے۔ ان میں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے ‘انرا’ کے لیے کام کرنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے درجن بھر ادارے اور عملے کے 17,000 ارکان غزہ میں دو ملین سے زیادہ اور مغربی کنارے میں تین ملین فلسطینیوں کو مدد پہنچا رہے ہیں۔ اس عملے میں بیشتر تعداد فلسطینی پناہ گزینوں کی ہے۔


راکٹ باری، سرحدیں بند ہونے اور فضائی حملوں میں اپنے 12 ارکان کی ہلاکت کے باوجود اس عملے نے غزہ میں امدادی کام ترک نہیں کیا۔ ‘او سی ایچ اے’ کے عملے کے رکن ہمدا البیاری نے یو این نیوز کو بتایا کہ غزہ میں ناکافی وسائل کے باوجود امدادی برادری نے اپنا کام جاری رکھا۔انہوں نے کہا کہ امداد کی فراہمی تقریباً مکمل طور پر بند ہو چکی ہے اور گزشتہ دو روز سے غزہ میں وسائل پہنچنے نہیں دیے گئے۔ چند روز سے امدادی کارکنوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ وہ کہاں مدد دیں۔