عندلیب اختر
ؓ دنیا بھر میں بھوک اور غربت کے حوالے سے جاری گلوبل ہنگر انڈیکس (جی ایچ آئی) کی تازہ رپورٹ سے ملک میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کے کیا یہ حقیقت پر مبنی ہے یا محض بھارت کو بدنام کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔اگر رپورٹ کی مانے تو معاشی سست روی اور کووڈ بحران کے درمیان ملک میں بھوک اور غیر متوازن غذائیت کی صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت اب پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی پیچھے ہو گیا ہے۔بھوک سے دوچار ممالک کی عالمی فہرست میں بھارت کے درجے میں مزید تنزلی یقینا باعث تشویش ہے۔ مگر حکومت کا ماننا ہے کے یہ رپورٹ حقیقت سے پرے ہے۔ جی ایچ آئی کے مطابق اس برس چین، برازیل اور کویت سمیت اٹھارہ ممالک نمبر پانچ سے بھی کم سکور کے ساتھ ٹاپ رینکنگ میں شامل ہیں۔ اس لحاظ سے بھی بہت سے ملک میں لوگ فکرمند ہیں کہ آخر پڑوسی ملک چین نے بھوک مٹانے میں اتنی اچھی پیش رفت کیسے کر لی اور بھارت پیچھے کیوں ہے؟
اگرچہ حکومت نے اس رپورٹ کہ خارج کر دیا ہے لیکن حکومت کو ایسی آنے پر تنقیع کا نشانہ بنایا جا راہا ہے۔خواتین اور بچوں کی بہبود کی مرکزی وزارت نے گلوبلHunger رپورٹ 2021، جس میں تغذیے کی کمی سے دو چار آبادی کے تناسب سے متعلق خوراک اور زراعت تنظیم کے جائزے کی بنیاد پر بھارت کی درجہ بندی کو کم کیا گیا ہے، وہ زمینی حقائق سے دور ہے۔ اس نے کہا ہے کہ رپورٹ اکٹھا کرنے کیلئے، جو تحقیقی طریقے اپنائے گئے ہیں، وہ درست نہیں ہیں۔ وزارت کا کہنا ہے کہ گلوبل Hunger رپورٹ کی پبلشنگ ایجنسیوں، Concern Worldwide اور Welt Hunger Hilfe نے رپورٹ جاری کرنے سے پہلے مناسب طریقے سے چھان بین نہیں کی۔ وزارت نے کہا ہے کہ خوراک اور زراعت تنظیم نے، جو تحقیقی طریقہ کار استعمال کیا ہے، وہ غیر سائنسی ہے۔وزارت نے دعویٰ کیا، ”ایف اے او کے ذریعہ استعمال کیا جانے والا طریقہ کار غیر سائنسی ہے۔ انہوں نے اپنے جائزے کو چار سوالات پر مبنی رائے شماری کے نتائج پر مبنی کیا، جو گیلپ نے ٹیلی فون پر کیا تھا۔
گلوبل ہنگر انڈیکس (جی ایچ آئی) کی تازہ رپورٹ کے مطابق 116 ممالک کی فہرست میں بھارت 101ویں مقام پر ہے۔ اس سے قبل سنہ 2020 میں ملک 94 ویں مقام پر تھا۔اس فہرست میں پاکستان 92ویں، نیپال اور بنگلہ دیش 76ویں نمبر پر ہیں جبکہ چین، برازیل اور کویت سمیت 18 ممالک سرفہرست ہیں جن کا جی ایچ آئی سکور پانچ سے کم ہے۔گلوبل ہنگر انڈیکس یہ ظاہر کرتا ہے کہ مختلف ممالک میں لوگوں کو کیسے اور کتنا کھانا ملتا ہے۔ یہ انڈیکس ہر سال تازہ ترین اعداد و شمار کے ساتھ جاری کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے دنیا بھر میں بھوک کے خلاف جاری مہم کی کامیابیوں اور ناکامیوں کی بھی عکاسی کی جاتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں کووڈ-19 کی وبا کی وجہ سے لگائی گئی پابندیوں کا لوگوں پر شدید اثر ہوا ہے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ ’ممکن ہے کہ یہ رینک کووڈ کی وجہ سے بدتر ہوئے ہوں، جیسا کہ کئی چھوٹے مطالعے بھی ظاہر کرتے ہیں لیکن اعداد و شمار کو مزید قریب سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس کی ایک اہم وجہ کووڈ وبا ضرور ہے لیکن یہ صرف اس وبائی بحران تک محدود نہیں بلکہ ایک سماجی اور ساختی مسئلہ بھی ہے۔جنوبی ایشیا اور افریقہ کے کچھ حصوں میں غذائی قلت طویل عرصے سے ایک عام بات ہے لیکن ہندوستان میں بہت سے افریقی ممالک سے بھی بدتر صورتحال کی وجہ روایتی جنسی کردار، پیدائش کی بلند شرح اور غذائیت سے محروم بچوں اور ماؤں کی صحت، صفائی ستھرائی اور ناقص معیار کی خوراک جیسے مسائل ہیں۔ دیہی اور قبائلی علاقوں میں بھوک اور غذائیت کے مسئلوں پر کام کرنے والی تنظیم ’رائز اگینسٹ ہنگر‘ کے سربراہ ڈولا موہاپاترا کہتے ہیں کہ ’لوگ اس کی وجہ کووڈ اور لوگوں کا روایتی پیشے سے محروم ہونے کو سمجھتے ہیں لیکن اگر آپ سطح کو تھوڑا بھی کھرچیں تو معلوم ہو گا کہ ہم اس مسئلے پر کئی برسوں سے جدوجہد کر رہے ہیں اور کئی برسوں سے اس کے اشارے مل رہے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’لہٰذا یہ صرف وبائی مرض یا خشک سالی جیسی عارضی صورتحال کے بارے میں نہیں بلکہ کھانے کی غیر مساوی تقسیم اور رسائی کے مسائل بھی ہیں۔‘
حکومت پر نکتہ چینی
ایسی رپورٹ کے لیے مودی حکومت پر کئی حلقوں کی جانب شدید نکتہ چینی کے ساتھ ہی طنز بھی ہو رہا ہے۔اپوزیشن کی جماعتوں سمیت کئی حلقوں نے اس کے لیے مودی حکومت پر شدید نکتہ چینی کی ہے جو اکثر اپنے آپ کو غریبوں کی مسیحائی کا دعوی کرتی رہتی ہے۔ حکمراں جماعت بی جے پی کا دعوی ہے کہ مودی حکومت ملک کو ترقی کی نئی راہوں پر لے کر گامزن ہے۔
اپوزیشن کانگریس پارٹی کے سینیئر رہنما کپل سبل نے اپنی ایک ٹویٹ میں اس انڈکس کا حوالہ دیتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا، ”مبارک ہو مودی جی! آپ نے غربت اور بھوک کا خاتمہ کر دیا، بھارت کو عالمی طاقت بنا دیا ہے، ملک کی معیشت کو ڈیجٹل کر دیا اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کر دکھایا ہے۔”انہوں نے لکھا، پاکستان 92ویں، بنگلہ دیش 76، سری لنکا 65 اور نیپال کی پوزیشن 76 ہے اور اس فہرست میں افغانستان بھی بھارت سے کچھ زیاد پیچھے نہیں بلکہ وہ 103 نمبر ہے۔کانگریس پارٹی کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ، ”اگر لوگ ملک میں پیٹ بھر کھانا نہیں کھا سکتے تو کیا اس سے حکومت کی کارکردگی پر سوال نہیں اٹھتا ہے؟” ایک اور کانگریسی رہنما منیش تیواری نے اس معاملے پر بحث کے لیے پارلیمان کا فوری طور پر اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ بعض لوگوں نے اس غربت اور بھوکے کے مسائل کے لیے کانگریس پارٹی کو بھی یہ کہہ کر مورد الزام ٹھہرایا ہے کہ اس نے ملک پر ایک طویل عرصے تک حکومت کی اور اسی کی وجہ سے آج بھی غربت ہے۔
’گلوبل ہنگر انڈیکس‘ کی پورٹ پر تنقید کرنا اور اسے بھارت کے خلاف بین الاقوامی سازش کے حصے کے طور پر مسترد کرنا بہت آسان ہے۔
یہ رپورٹ پوری طرح سے حقیقت ہو نہ ہو انتباہ ضرو ہے اس کے بارے میں شتر مرغ کا رویہ اپنانے کے بجائے،
اگر ہم اس سے سبق لیں اور نظام میں ضروری اور مطلوبہ اصلاحات کی طرف بڑھیں تو یہ تصویر نہ صرف تبدیل ہو سکتی بلکہ مکمل طور پر الٹ بھی سکتی ہے۔ ہم اگر چاہیں تو پہلے پائیدان پر بھی آسکتے ہیں۔AMN