جاوید اختر
سوشل میڈیا کی امریکی کمپنی ٹوئٹر اور حکومت ہند کے درمیان ٹکراو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔انفارمیشن ٹکنالوجی کے وزیر روی شنکر پرساد کے ٹوئٹراکاونٹ کو عارضی طورپر بند کرنے کے اقدام سے حکومت کی ناراضگی مزید بڑھ گئی ہے۔اس سے قبل ٹوئٹرنے بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا کے ٹوئٹ پر Manipulated Mediaکا ٹیگ لگا دیا تھا جس نے حکومت کو خفا کردیا تھا۔ ٹکراو کی شدت میں اس وقت اور بھی اضافہ ہوگیا جب ٹوئٹر نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت اور نائب صدر جمہوریہ ایم وینکیا نائیڈو کے ٹوئٹر اکاونٹ عارضی طورپر معطل کردیے۔ حالانکہ ٹوئٹر کی بھارتی انتظامیہ نے بعد میں وضاحت کرتے ہوئے تکنیکی ضابطوں کا حوالہ دیا او ر اکاونٹ بحال کردیے لیکن حکومت ہند اور ٹوئٹر کے درمیان تلخی تو بہر حال پیدا ہوہی گئی۔
حکومت ہند او رٹوئٹر کے درمیان اسی کشیدگی کا نتیجہ تھا کہ اترپردیش کی یوگی ادیتیہ ناتھ حکومت نے ٹوئٹر کے خلاف ایک کیس درج کیا جو اس طرح کا پہلا کیس ہے۔ا س سے چند گھنٹے قبل ہی حکومت ہند نے ٹوئٹر کو حاصل خصوصی قانونی تحفظ ختم کردی تھی۔
دراصل ملک کے نئے آئی ٹی (انفارمیشن ٹیکنالوجی) ضابطوں پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہنے پر ٹویٹر کی ‘انٹرمیڈیری حیثیت‘ چھین لی گئی ہے۔ اس کے ساتھ اب ایک پبلیشر کے طور پر سلوک کیا جائے گا اور اگر کسی مبینہ غیر قانونی مواد کے سلسلے میں اس کے خلاف کیس دائر کیا جاتا ہے تو اسے ہندوستانی قوانین کے تحت سزا ہو سکتی ہے۔


آئی ٹی ایکٹ کے تحت ٹویٹر واحد امریکی پلیٹ فارم ہے، جس سے’حفاظتی ڈھال‘ چھین لی گئی۔ فیس بک، یو ٹیوب اور واٹس ایپ جیسے دیگر پلیٹ فارمز کو ابھی تک یہ خصوصی تحفظ حاصل ہے۔ ٹویٹر سے ‘حفاظتی ڈھال‘ چھن جانے کے بعد اب ہندوستان میں کسی صارف کے ذریعے اس کے پلیٹ فارم پر ‘غیر قانونی‘ یا ‘اشتعال انگیز‘ مواد پوسٹ کرنے پر کمپنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر سمیت اس کے اعلی افسران کے خلاف مجرمانہ مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے اور انہیں پولیس کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ٹوئٹر سے اس خصوصی حفاظتی ڈھال کو چھین لیے جانے کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر روی شنکر پرساد نے درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے ہندوستانی ضابطو ں پر عمداً عمل نہیں کیا، حالانکہ اسے کئی مواقع دیے گئے۔ ان کا کہنا تھا، ”یہ حیران کن ہے کہ خود کو اظہار رائے کی آزادی کا علمبردار قرار دینے والے ٹویٹر سے، جب انٹرمیڈیری گائیڈ لائنس پر عمل کرنے کے لیے کہا گیا تو اس نے جان بوجھ کر سرکشی کا رویہ اپنایا۔”
روی شنکر پرساد کا کہنا تھا، ”قانون کی حکمرانی ہندوستانی سماج کا بنیادی پتھر ہے۔ ہندوستان نے حالیہ جی سیون سربراہی کانفرنس میں ایک بار پھر اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت کے تئیں اپنے وعدے کا اعادہ کیا ہے۔ لیکن اگر کوئی غیر ملکی کمپنی اظہار رائے کی آزادی کا علمبردار کے طور پر پیش کر کے خود کو ملکی قانون سے بالاتر سمجھتی ہے تو وہ غلط فہمی کا شکار ہے۔” انہوں نے مزید کہا، ”امریکا یا کسی بھی دوسر ے ملک میں بزنس کرنے والی ہندوستانی کمپنیاں مقامی قوانین پر مکمل عمل درآمد کرتی ہیں لیکن بھارت میں ٹویٹر کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جا سکتی۔”
حکومت اور ٹوئٹر کے درمیان رسہ کشی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ حکمراں بی جے پی چاہے گی کہ ٹوئٹر وہ تمام ٹوئٹ ہٹادے جو پارٹی اور حکومت کے خلاف ہیں اور پارٹی یہ بھی چاہے گی کہ حکومت کے حق میں اوراپوزیشن کے خلاف کیے جانے والے ہر ٹوئٹ کواسی طرح شائع کیا جائے۔حالانکہ حکومت تمام سوشل میڈیا پر ایسا ہی کرنا چاہے گی لیکن ٹوئٹر سے خاص طور پر۔
یہ دلچسپ صورت حال ہے۔ بی جے پی ٹوئٹر کو وسیع تر افراد تک رسائی کا ذریعہ مانتی ہے۔ خاص طور پر بیرونی ملکوں میں اپنی رسائی کے لیے اسے اہم سمجھتی ہے۔ اس کے دوستوں اور کاروباریوں نے کافی پیسے خرچ کرکے ایسے ادارے بنائے ہیں جو ٹوئٹر پر میسج پبلش کرتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ دوسرے مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم کے ذریعہ میسج پبلش کیے جائیں لیکن ٹوئٹر استعمال کرنے والے اس پلیٹ فارم کو پسند نہیں کریں گے۔
اس بات کو سمجھنے کے لیے اعدادو شمار پر نگاہ ڈالنا پڑے گا۔ ٹوئٹر کے مطابق ہندوستان میں اس کے دو کروڑ سے بھی کم سرگرم صارفین ہیں۔ جبکہ دنیا بھر میں روزانہ 35.3 کروڑ سے زیادہ لوگ ٹوئٹر کا استعمال کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں ٹوئٹر کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی کے پرائیوٹ ٹوئٹر اکاونٹ رپ 6.9کروڑ فالوورز ہیں۔ مودی کے فالوور ز کی بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو ہندوستان میں نہیں رہتے۔ ٹوئٹر پر پابندی لگانا اور اسے ہندوستان سے کاروبار سمیٹے کے لیے کہہ دینا آسان ہے لیکن عملی طورپر یہ بہت مشکل ہے۔ چین، ایران، شمالی کوریا، ترکمانستان او رنائجیریا نے ٹوئٹر پر پابندی عائد کررکھی ہے لیکن ان میں سے کسی بھی ملک کا امیج ایک آزاد اور سیکولر ملک کے طور پرنہیں ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ عالمی صارفین ایسا پسندنہیں کریں گے کیونکہ انہیں پابندی عائد کرنا غیر جمہوری محسوس ہوسکتا ہے۔ ایسے میں دیگر ملٹی نیشنل ادارے میں چوکنا ہوجائیں گے۔ ہندوستان شاید نہیں چاہے گا کہ اس کا نام بھی ان ملکوں کی فہرست میں شامل ہوجن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔
جہاں تک ٹوئٹر کا معاملہ ہے تو وہ بھی نہیں چاہے گا کہ تیسرے سب سے بڑے کنزیومر والے بازار سے محروم ہوجائے۔ حالانکہ فی الحال اسے ہندوستان سے حاصل ہونے والا ریونیو بہت معمولی ہے۔جنوری مارچ 2021 میں ٹوئٹر کے ریونیو کا 30فیصد جاپان اور امریکا سے حاصل ہوا تھا۔
سوال یہ ہے کہ حکومت ہند اور ٹوئٹر کے درمیان اس رسہ کشی میں پیچھے کون ہٹے گا؟ دونوں کے پاس گنوانے کے لیے کچھ نہ کچھ ہے۔ اگر ٹوئٹر پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو بی جے پی کو آئندہ الیکشن سے پہلے اپنے پیغامات پہنچانے کے دوسرے طریقے پر ازسرنو توجہ دینی ہوگی اور صارفین کو پلیٹ فارم تبدیل کرنے کے لیے کہنا ہوگا۔ ٹوئٹر شاید انتظار کرنا بہتر سمجھے لیکن شاید اس کے لیے بھی اسے ہمت کی ضرورت ہوگی۔(اے ایم این)