ُ
جاوید اختر
تمل ناڈو ہندوستان کی ایسی دوسری ریاست بن گئی ہے جس نے دکانوں میں کام کرنے والی خواتین کو بیٹھنے کا حق سے متعلق قانون کو منظوری دے دی۔جنوبی ریاست کیرالا نے سن 2018میں اسی طرح کا قانون منظور کیا تھا۔ بالخصوص جنوبی ریاستوں کیرالا اور تمل ناڈو میں ملبوسات اور زیورات کی دکانوں پر عام طور پر خواتین سیلز وومن کے طورپر کام کرتی ہیں۔ ان خواتین کو روزانہ کم از کم 10گھنٹے ڈیوٹی دینی پڑتی ہے اور ڈیوٹی کے دوران انہیں مسلسل کھڑا رہنا پڑتا ہے۔جس کی وجہ سے پاوں اور ایڑیوں میں درد اور بعض اوقات جکڑن پیدا ہوجاتی ہے۔ خواتین ورکرز اور ان کی تنظیمیں اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے ایک عرصے سے آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ ریاست تمل ناڈو نے گزشتہ ماہ ایک بل کو منظوری دی جس کی رو سے اب خواتین ورکرزڈیوٹی کے دوران کچھ دیر کے لیے بیٹھ سکیں گی۔ اب تک انہیں صرف 20منٹ کے لیے لنچ بریک ملتا تھا اورمحض چند سیکنڈ ٹیک لگانے کی اجازت تھی۔
خواتین کے لیے بڑی راحت
دکانوں میں کام کرنے والی خواتین ورکرز کو بیٹھنے کا حق(Right to Sit)ملنے کو عورتوں کے لیے ایک بڑی راحت قرار دیا جارہا ہے۔ بالخصو ص ان خواتین کے لیے جنہیں حاملہ ہونے کے باوجود مسلسل کھڑے رہنا پڑتا ہے۔تمل ناڈو سے تعلق رکھنے والی صحافی اپرنا رامامورتی کا کہنا ہے کہ یہ قانون خواتین کے لیے ایک بڑی راحت ہے۔ا س سے انہیں کافی فائدہ ہوگا۔ اور اب عورتیں پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں ملازمت کے لیے آسکیں گی۔اپرنارامامورتی کے مطابق یہ مسئلہ صرف بیٹھنے کی اجازت تک ہی محدود نہیں تھا۔ مسلسل کھڑے رہنے سے خواتین صرف جسمانی ہی نہیں بلکہ ذہنی طور پر بھی متاثرہوتی تھیں۔ اور اس کی وجہ سے ان کی زندگی پر کافی برا اثر پڑتا تھا۔یہ دراصل انسانی حقوق کا بھی مسئلہ تھا۔انہوں نے مزید بتایا کہ خواتین کو دس دس بارہ بارہ گھنٹے تک کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ حتی کہ کھانے پینے کے لیے بھی بہت مختصر وقفہ دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے انہیں کئی طرح کی جسمانی بیماریاں لاحق ہوجاتی تھیں۔ایسی متاثرہ خواتین کو اکثر پاوں میں درد کی شکایت رہتی ہے۔گزشتہ 10برس سے کپڑے کی ایک دکان پر کام کرنے والی 40سالہ لکشمی کہتی ہیں،اب تک کام کے دوران آرام کے لیے ہمیں صرف 20منٹ لنچ بریک کے وقت ملتا تھا۔اور ہم اپنے پیروں کو تھوڑا آرام دینے کے لیے شیلف کے سہارے چند منٹ کے لیے ٹیک لگالیتے تھے۔وہ کہتی ہیں،اگر کوئی کسٹمر نہیں ہو تب بھی ہمیں فرش یا کرسی پر بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔
کھڑے ہوکر کام کرنے کا ضابطہ
ہندوستان میں بعض دکانوں اور ریٹیل اسٹورس میں کام کرنے والے ملازمین کو کھڑے ہوکر ہی کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک ایسا ضابطہ ہے جو یکساں طورپر تمام ملازمین پر نافذ ہوتا ہے۔ تمل ناڈو ورکنگ وومنز کوارڈی نیشن کمیٹی کی کنوینر ایم دھن لکشمی کہتی ہیں،یہ ہمارا کافی دیرینہ مطالبہ تھا۔ خواتین کام پر جانے کے لیے جب بس پر سوار ہوتی ہے اس کے بعد گھرلوٹنے تک انہیں تقریباً 12 سے 14 اگھنٹے تک کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ انہیں بیٹھنے کے لیے بڑی مشکل سے موقع مل پاتا ہے۔ اس کی وجہ سے وہ صحت کے مسائل سے دوچار ہوتی ہیں اور انہیں مسلسل دباو میں کام کرنا پڑتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ خواتین کو تنخواہیں بھی بہت کم ملتی ہیں۔
بیٹھنے کا حق مہم کیسے شروع ہوئی؟
پیشے سے درزی پی ویجی نے کیرل میں بیٹھنے کا حق کے لیے مہم شرو ع کی۔ انہوں نے ایک تنظیم بنائی، جس میں عام طورپر ایسے ملازمین شامل ہیں جو غیر منظم سیکٹر مثلاً دکانوں وغیرہ میں معاون کے طورپر کام کرتے ہیں۔ویجی بتاتی ہیں کہ چونکہ خواتین کو کام کے دوران بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی اس لیے انہوں نے اپنے سر پر کرسیاں رکھ کر مظاہروں کا سلسلہ شروع کردیا۔بہر حال کیرالا کی حکومت کو خواتین کی پریشانیوں کا اندازہ ہوگیا او راس نے سن 2018میں ایک قانون منظور کیا۔ جس کے بعد اب دکانوں میں کام کرنے والی خواتین کوکسٹمر نہیں رہنے پر بیٹھنے کی اجازت مل گئی ہے۔پی ویجی، تمل ناڈو حکومت کی طرف سے بیٹھنے کا حق دینے کے فیصلے سے خوش ہیں۔ تاہم وہ کہتی ہیں،اصل امتحان اس کو نافذ کرنا ہے۔
منزل ابھی دور ہے۔ تمل ناڈو ورکنگ وومنز کوارڈی نیشن کمیٹی کی کنوینر دھن لکشمی کا کہنا تھا،بیٹھنے کا حق ان کے مطالبات میں سے ایک ہے جو پورا ہوا ہے لیکن ابھی کافی طویل سفر طے کرنا ہے۔ کم تنخواہ، رفع حاجت کے لیے جانے کی حد اور ان پر مسلسل نگرانی جیسے مسائل اب بھی برقرار ہیں۔ دھن لکشمی کا کہنا تھا کہ گوکہ دکان مالکان دکانوں میں سی سی ٹی وی کیمروں کو نصب کیے جانے کے لیے یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس سے کسٹمرس کے ذریعہ چوری کو روکنے میں مدد ملتی ہے لیکن دراصل وہ اس کا استعمال ورکرز کی جاسوسی کرنے کے لیے کرتے ہیں۔
کیرالا میں مزدوروں کی یونین سی سی ٹی وی نگرانی پر پابندی لگانے کا مطالبہ کررہی ہے۔ یونین کا کہنا ہے کہ اس کا استعمال ملازمین کے آپس میں بات کرنے یا کچھ وقت کے لیے اپنی جگہ سے اٹھ جانے پر سزا دینے کے لیے کیا جاتا ہے۔ سزا کے طورپر ان کی تنخواہیں کاٹ لی جاتی ہیں۔دھن لکشمی کو بہت زیادہ امید نہیں کہ تمل ناڈو میں بیٹھنے کا حق کا قانون منظور ہوجانے کے بعد بھی صورت حال میں کوئی خاص تبدیلی آئے گی۔ مینیجر بہت سخت ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم ہر وقت اپنے ایک پاوں پر کھڑے رہیں۔ا س لیے اگر کرسیاں آبھی گئیں تب بھی ہم نہیں سمجھتے کہ کام کے دوران ہمیں بیٹھنے کی اجازت مل سکے گی۔(اے ایم این)