Welcome to The Indian Awaaz   Click to listen highlighted text! Welcome to The Indian Awaaz
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش پیرس میں مصنوعی ذہانت کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔

United Nations/Marie Etchegoyen

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش پیرس میں مصنوعی ذہانت کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے دنیا سے اپیل کی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کو ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مابین فرق کو دور کرنے کے لیے استعمال کیا جائے اور تمام ممالک اس مقصد کے لیے متحد ہو کر کام کریں۔

ان کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت جیسی ٹیکنالوجی دنیا کو تیزی سے تبدیل کر رہی ہے لیکن اس وقت یہ طاقت گنے چنے چند ممالک اور لوگوں کے ہاتھ میں ہے جس سے ارضی سیاسی تقسیم مزید گہری ہو جانے کا خدشہ ہے۔ یکجہتی، مساوی پالیسیوں اور شفاف کاروبار کے لیے اس ٹیکنالوجی سے متعلق عالمگیر ضابطوں پر اتفاق رائے اور ان کا فوری اطلاق ضروری ہے جبکہ اس ضمن میں بہترین طریقہ ہائے کار کا تبادلہ بھی ہونا چاہیے۔

Tweet URL

سیکرٹری جنرل نے یہ بات فرانس کے دارالحکومت پیرس میں مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے موضوع پر منعقدہ عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس کانفرنس میں عالمی رہنماؤں اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے سربراہوں کے علاوہ مختلف شعبوں کی نمایاں شخصیات بشمول معروف امریکی گلوکار اور موسیقار فیرل ولیمز نے بھی شرکت کی۔

مصنوعی ذہانت اور اقوام متحدہ

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اس نئی ٹیکنالوجی کو تمام انسانوں کے لیے فائدہ مند بنانا اقوام متحدہ کا مقصد ہے۔ گزشتہ سال عالمی برادری کی جانب سے متفقہ طور پر منظور کردہ مستقبل کا معاہدہ دنیا کو مصنوعی ذہانت کے انتظام سے متعلق ایک مشترکہ سوچ کے تحت متحد کرتا ہے کہ ٹیکنالوجی سے انسان کو نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہونا چاہیے۔

مصنوعی ذہانت کے انتظام پر تمام رکن ممالک کے مابین مکالمہ بھی ضروری ہے تاکہ اس کی ایپلیکشنز میں انسانی حقوق کو ترجیح دی جائے اور اس ٹیکنالوجی کا غلط استعمال روکا جا سکے۔

انہوں نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ مصنوعی ذہانت پر ایک آزاد بین الاقوامی سائنسی پینل کے قیام کی حمایت کریں۔

قابل تجدید توانائی کی ضرورت

سیکرٹری جنرل نے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے معلوماتی مراکز (ڈیٹا سنٹرز) کے کام سے کرہ ارض کے وسائل پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنے کے لیے قابل تجدید اور ماحول دوست توانائی کے استعمال پر بھی زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کے الگورتھم اور بنیادی ڈھانچے کو اس طرح ترتیب دینے کی ضرورت ہے جس سے توانائی کا استعمال کم سے کم ہو اور یہ مراکز سمارٹ گرڈ سے مربوط ہوں۔ معلومات مراکز سے لے کر تربیتی نمونوں (ٹریننگ ماڈل) تک مصنوعی ذہانت کو پائیدار توانائی کے ذریعے آگے بڑھانا ہو گا تاکہ یہ مزید مستحکم مستقبل کی تعمیر میں مدد دے سکے۔

تیزی سے ترقی کرتی مصنوعی ذہانت کو عدم مساوات کو مزید گہرا کرنے کے بجائے پائیدار ترقی کے اہداف تک پہنچنے کی رفتار بڑھانے میں مددگار ہونا چاہیے۔

توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی ای اے) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر فاتح بیرول نے تصدیق کی کہ مصنوعی ذہانت کے معلوماتی مراکز اور دیگر ڈھانچے کو چلانے سے توانائی کی طلب پہلے ہی بڑھ چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ توانائی کے بغیر مصنوعی ذہانت کا وجود باقی نہیں رہ سکتا۔ دنیا میں اس کے ہزاروں معلومات مراکز بنائے جا رہے ہیں اور ان کے لیے ماحول دوست انداز میں اور سستی توانائی کا انتظام کرنا حکومتوں کو درپیش ایک اہم مسئلہ ہے۔ 

امریکہ کی جانب سے ضابطوں کی مخالفت

مقبول گلوکار فیرل ولیمز نے مصنوعی ذہانت سے وابستہ امکانات اور خطرات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ٹیکنالوجی نہ تو لوگوں کو بے کار بنائے گی اور نہ ہی اس سے نوکریاں ختم ہوں گی۔ گیت لکھنے کے لیے مصنوعی ذہانت سے مدد نہیں لی جائے گی اور یہ ٹیکنالوجی انسانی کی تخلیقی صلاحیتوں کی جگہ بھی نہیں لے پائے گی۔

مصنوعی ذہانت سے متعلق جنوبی کوریا کی سرکردہ کمپنی ‘نیور’ کی سربراہ چوئی سو یون نے واضح کیا کہ آج کی دنیا میں لوگ ویب سائٹ نہیں بلکہ اطلاعات چاہتے ہیں اور یہی ان کی ضرورت ہے۔ مصنوعی ذہانت صارفین کے ارادوں اور تناظر کو سمجھ کر ان کے لیے ایسی اشیا تجویز کرے گی جو وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس نے کہا کہ ان کا ملک اس شعبے میں 450 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ تاہم، انہوں نے مصنوعی ذہانت پر سخت کنٹرول کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ حد سے زیادہ ضابطہ کاری کی صورت میں یہ انقلابی صنعت آگے نہیں بڑھ پائے گی۔

Click to listen highlighted text!