معیشت کے رسمی شعبوں میں روزگار کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے لوگ ذاتی کاروبار کرنے پر مجبور ہیں۔

کووڈ۔19 وبا، 2022 کے سیلاب اور حالیہ اقتصادی بحران کے باعث پاکستان میں افرادی قوت کے شعبے کو ناقابل برداشت مسائل کا سامنا ہے جس کے باعث رواں سال ملک میں بے روزگار لوگوں کی تعداد 56 لاکھ تک پہنچنے کا امکان ہے۔

معاشی گراوٹ اور مہنگائی نے شہریوں اور کاروباروں کے لیے شدید مشکلات کھڑی کر دی ہیں جن کے باعث اچھی اجرت والے روزگار عام کرنےکی جانب کئی دہائیوں کی محنت ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔

عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) کی ایک حالیہ رپورٹ ’پاکستان: حکومتی کفایت شعاری کے ماحول میں روزگار کے مواقعوں کا جائزہ‘ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال ملک میں بے روزگاری کی شرح 8.5 فیصد رہنے کا امکان ہے جو 2021 میں 6.2 فیصد تھی۔

حکومتی کفایت شعاری کا مطلب سرکاری اخراجات میں کمی لانا ہوتا ہے جن میں صارفین کو بجلی، گیس، اور تیل کی قیمتوں میں دی جانے والی رعایت پر اٹھنے والے اخراجات بھی شامل ہیں۔ اسی طرح زرعی و صنعتی شعبے کو پیداواری مداخل کی خرید پر دی جانے والی رعایتیں اور ٹیکسوں میں دی جانے والی چھوٹ کم کرنا یا واپس لے لینا بھی حکومتی کفایت شعاری کے زمرے میں آتے ہیں۔

‘آئی ایل او’ نے نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ پاکستان کے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اس کی شرائط کے تحت حکومت نے جو کفایتی اقدامات اٹھائے ہیں ان سے مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، جس سے لوگوں کی قوت خرید تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے اور اس کا نتیجہ غربت میں اضافے کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔

پاکستان کے معاشی مسائل

رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت کو پہلے ہی بہت سے بنیادی نوعیت کے مسائل کا سامنا تھا جن میں کووڈ۔19 وبا، یوکرین میں روس کی جنگ کے نتیجے میں عالمی سطح پر اشیائے صرف کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث 2022 میں آنے والے سیلاب جیسی تباہ کن قدرتی آفت نے اور بھی اضافہ کر دیا ہے۔ صرف سیلاب کے نتیجے میں ہونے والا مجموعی معاشی نقصان 15 ارب ڈالر ہے۔

ان حالات میں معیار زندگی پستی کا شکار ہے اور افرادی قوت کی طلب بھی کم ہو گئی ہے۔ آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ 2023 میں پاکستان کے حقیقی جی ڈی پی میں ترقی کی شرح منفی 0.5 فیصد رہے گی۔ رواں سال مہنگائی کی شرح 29.6 فیصد تک پہنچ جائے گی جو 2022 میں 12.1 فیصد تھی جبکہ 2024 میں بھی یہ شرح 25 فیصد سے نیچے آنے کا امکان نہیں ہے۔

آئی ایم ایف کی ہدایت پر بجلی کے لیے امدادی قیمت کا خاتمہ بھی قیمتوں میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔ غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے آنے والی کمی اور معیشت پر اعتماد کے فقدان کی وجہ سے پاکستان کے روپے نے امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر تیزی سے کھوئی ہے۔ جولائی 2021 سے جولائی 2023 کے درمیان ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 74.4 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی۔

اپریل 2022 میں ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 10.5 بلین ڈالر تھے جو اپریل 2023 میں کم ہو کر 4.5 ارب ڈالر رہ گئے۔ اس کے بعد ان میں اضافہ ہوا جب آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے پا جانے کےبعد وسط جولائی 2023 میں ان کی مقدار 8.7 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔

مالی سال 24-2023 کے بجٹ میں مجموعی مصارف میں سے نصف قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی پر خرچ ہوں گے اور ان میں ترقیاتی اخراجات کا حصہ 10 فیصد سے بھی کم ہے۔ اگرچہ وفاقی بجٹ میں اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں پاکستان کا مالیاتی نظام دوبارہ درست راہ پر گامزن ہو جائے گا تاہم حکومت کی نئی معاشی پالیسیوں سے عام آدمی کی مالی حالت اور بھی خراب ہو جائے گی