‘روزگار کی عالمی صورتحال اور سماجی منظرنامہ: 2025 کے رجحانات
‘
عندلیب اختر
عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ جغرافیائی و سیاسی کشیدگیوں کے باعث موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات پر اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے اور قرضوں کے مسائل سے افرادی قوت کی منڈی کو دباؤ کا سامنا ہے۔ادارے کی جاری کردہ رپورٹ بعنوان ‘روزگار کی عالمی صورتحال اور سماجی منظرنامہ: 2025 کے رجحانات’ میں کہا گیا ہے کہ کووڈ۔19 وبا کے نتیجے میں پیدا ہونے والی معاشی گراوٹ سے بحالی کی رفتار سست پڑ رہی ہے۔ گزشتہ سال روزگار میں اضافے کی شرح بڑھتی ہوئی افرادی قوت کے مساوی تھی اور اس طرح بے روزگاری کی شرح 2023 کی سطح پر برقرار رہی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2024 میں لیبر فورس کے مطابق عالمی روزگار میں اضافہ ہوا، بے روزگاری کی شرح 5 فیصد پر مستحکم رہی۔ تاہم، نوجوانوں کی بے روزگاری میں بہت کم بہتری دکھائی دی، جو کہ 12.6 فیصد پر بلند ہے۔ غیر رسمی کام اور کام کرنے والی غربت وبائی امراض سے پہلے کی سطح پر واپس آگئی، اور کم آمدنی والے ممالک کو معقول ملازمتیں پیدا کرنے میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا ہے
بے روزگار نوجوانوں کی تعداد بدستور بڑھ رہی ہے۔ غیررسمی کام کرنے والوں اور غریب محنت کشوں کی تعداد وبا سے پہلے کی سطح پر واپس چلی گئی ہے جبکہ کم آمدنی والے ممالک کو اپنے شہریوں کے لیے باوقار روزگار پیدا کرنے میں دوسروں سے کہیں زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔
کم آمدنی والے ممالک کی افرادی قوت میں کمی آئی ہے جبکہ بلند آمدنی والی معیشتوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے جہاں بالخصوص بڑی عمر کے کارکنوں اور باروزگار خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔تاہم، باروزگار افراد میں صنفی فرق اب بھی بہت زیادہ ہے اور افرادی قوت میں خواتین کی کمی کے باعث رہن سہن کے معیار میں بہتری کی شرح محدود ہے۔افرادی قوت میں نوجوانوں کی تعداد بھی تیزی سے کم ہوئی ہے جن میں بہت سے تعلیم اور روزگار یا پیشہ وارانہ تربیت کے پروگراموں (این ای ای ٹی) سے محروم ہیں اور اس طرح انہیں معاشی مسائل کے مقابل عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ اگرچہ کم آمدنی والے ممالک میں یہ صورتحال نمایاں ہے لیکن دنیا بھر میں نوجوان خواتین کے حوالے سے یہ رجحان یکساں ہے۔
معاشی بحالی کے مسائل
‘آی ایل او’ نے بتایا ہے کہ چند ترقی یافتہ معیشتیں ہی اجرتوں میں اضافہ کر سکی ہیں اور بیشتر ممالک تاحال گزشتہ بحران کے اثرات سے بحالی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔گزشتہ برس عالمی معیشت میں معتدل ترقی ہوئی اور سال کے آخری حصے میں اس کی رفتار کم ہو گئی تھی۔ رواں سال بھی اس کی یہی رفتار برقرار رہنے کی توقع ہے۔اگرچہ مہنگائی کی شرح میں کمی آئی ہے لیکن عالمی معیشت تاحال وبا سے ہونے والے روزگار کے نقصان کو پورا نہیں کر سکی۔ رپورٹ میں روزگار کی سست رو ترقی کو اس کی ایک بڑی وجہ قرار دیا گیا ہے۔
40 کروڑ 20 لاکھ بے روزگار
گزشتہ سال ایسے لوگوں کی تعداد 40 کروڑ 20 لاکھ تک پہنچ گئی تھی جو کام کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے لیے روزگار دستیاب نہیں ہے۔ اس میں 18 کروڑ 60 لاکھ لوگ مکمل طور پر بے روزگار ہیں، 13 کروڑ 70 لاکھ عارضی طور پر کام کے لیے دستیاب ہوتے ہیں اور 7 کروڑ 90 لاکھ ایسے ہیں جنہوں نے بے روزگاری سے دلبرداشتہ ہو کر کام کی تلاش ترک کر دی ہے۔رپورٹ کے مطابق، اگرچہ افرادی قوت میں
اضافے کی شرح کم ہو رہی ہے لیکن آئندہ دو سال کے دوران اس کے مستحکم رہنے کا امکان ہے۔’آئی ایل او’ نے بتایا ہے کہ ماحول دوست توانائی اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے شعبوں میں روزگار بڑھنے کا امکان ہے۔ قابل تجدید توانائی کے شعبے میں مزید ایک کروڑ 62 لاکھ نوکریاں پیدا ہوئی ہیں جس میں شمسی اور ہائیڈروجن کی توانائی پر سرمایہ کاری کا اہم کردار ہے۔ تاہم، دنیا میں سبھی لوگوں کو مساوی طور پر یہ روزگار میسر نہیں ہیں اور ایسی تقریباً نصف نوکریاں مشرقی ایشیا میں ہیں۔ڈیجیٹل ٹیکنالوجی مواقع بھی لاتی ہے تاہم اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بہت سے ممالک میں اس جدت کے مکمل فوائد سمیٹنے کے لیے درکار ضروری ڈھانچے اور صلاحیتوں کا فقدان ہے۔
اختراعی طریقہ ہائے کار
رپورٹ میں ہنر کی تربیت، سماجی تحفظ کو وسعت دینے اور کم آمدنی والے ممالک میں مقامی سطح پر ترقی کے لیے نجی وسائل کے استعمال کی حوصلہ افزائی جیسے اقدامات کے ذریعے پیداواری صلاحیت میں اضافے کی سفارش کی گئی ہے۔’آئی ایل او’ کے ڈائریکٹر جنرل گلبرٹ ہونگبو نے روزگار اور اجرتوں میں اضافے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ سماجی انصاف اور پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کو حاصل کرنے کے لیے باوقار اور مفید روزگار کی لازمی اہمیت ہے۔
۔دریں اثنا دنیا کی معاشی صورتحال اور مستقبل کے امکانات سے متعلق اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ باہم متعامل معاشی دھچکوں سے سنبھلنے کے باوجود معاشی ترقی میں بڑھوتری کووڈ۔19 وبا سے پہلے کی سطح کو نہیں چھو سکی جو کہ 3.2 فیصد تھی۔یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے شعبہ معاشی و سماجی امور (ڈیسا) نے تیار کی ہے جس میں سرمایہ کاری کی کمی، سست رو پیداوار اور بھاری قرضوں کو رواں سال ممکنہ کمزور معاشی کارکردگی کی بنیادی وجوہ بتایا گیا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2025 میں عالمگیر تجارت میں 3.2 فیصد کی شرح سے وسعت آنے کی توقع ہے جس میں ایشیا سے بڑی مقدار میں برآمدات اور خدمات کی تجارت کا اہم کردار ہو گا۔ علاوہ ازیں، دنیا بھر میں مہنگائی کم ہو کر 3.4 فیصد پر آ جائے گی جس سے کاروباروں اور عام لوگوں کے لیے قدرے آسانیاں پیدا ہوں گی۔مشرقی ایشیا کی معیشت مقابلتاً مضبوط رہنے کا امکان ہے جسے نجی شعبے کی جانب سے بڑے پیمانے پر صَرف اور چین میں مستحکم اقتصادیات سے مدد ملے گی۔ انڈیا کی معیشت میں متواتر وسعت آنے کے سبب جنوبی ایشیا تیزترین رفتار سے ترقی کرنے والا خطہ ہو گا۔رواں سال امریکہ میں تیزرفتار معاشی ترقی کی توقع نہیں ہے جہاں افرادی قوت کی منڈیاں کمزور ہوئی ہیں اور صارفین کی جانب سے اخراجات میں بھی کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔یورپ میں مہنگائی کم ہونے اور افرادی قوت کی منڈیوں میں بہتری آنے کے باوجود معاشی بحالی کو کمزور پیداواری ترقی اور معمر افراد کی بڑھتی آبادی کے سبب مشکلات کا سامنا رہے گا۔براعظم افریقہ میں معتدل درجے کی معاشی بہتری کا امکان ظاہر کیا گیا ہے جس میں مصر، نائجیریا اور جنوبی افریقہ سمیت بڑی معیشتوں کی بحالی کا اہم کردار ہے۔