نئی دہلی

AMN/ NEW DELHI

آج یہاں اندراگاندھی انڈوراسٹیڈیم میں منعقد تحفظ آئین ہند کنونشن میں شرکت کے لئے آئے ہوئے لاکھوں فرزندان توحید سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے ملک کی آزادی کی جدوجہد میں علماء، مدارس اورجمعیۃعلماء ہند کے تاریخی اورمثالی کردارکو اجاگرکرتے ہوئے ایک بارپھر کہا کہ ملک کی آزادی مسلمانوں کی طویل جدوجہد اورقربانیوں کا نتیجہ ہے انہوں نے کہا کہ کانگریس کی تشکیل ملک کو غلامی زنجیروں سے آزادکرانے کے لئے نہیں ہوئی تھی بلکہ 1832اور1857میں علماء کے ذریعہ کئے گئے جہادکے بعدبرطانیہ اورہندوستان کے درمیان رشتوں میں جو کشیدگی آگئی تھی اس کو دورکرنے کے لئے ہوئی تھی، یہ جمعیۃعلماء ہند ہی تھی کہ جس نے ملک کی جدوجہد آزادی کے لئے کانگریس کو اپنی پالیسی بدلنے پر مجبورکیا مولانا مدنی نے کہا کہ اس جدوجہدمیں مسلمانوں اورہمارے علماء کو بے پناہ صعوبتیں اٹھانی پڑی یہاں تک کہ 1857 کی جنگ میں تنہادہلی میں 35ہزارمسلمانوں کو بے دردی سے شہیدکرکے ان کی لاشیں درختوں پر لٹکادی گئیں، مگر ہمارے اکابرین نہیں جھکے آج کے سیاسی اورسماجی حالات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب ہم انگریزوں کے ظلم وجبرکے سامنے نہیں جھکے تواب ہمیں کوئی طاقت نہیں جھکاسکتی، کیونکہ مسلمان صرف ایک اللہ کے آگے ہی اپنا سرجھکاتاہے، انہوں نے کہا کہ فرقہ پرست طاقتوں کو ملک میں آگ لگانے کی پوری جھوٹ ملی ہوئی ہے مذہب کی بنیادپر لوگوں کو تقسیم کرنے کی کوشش ہورہی ہے طرح طرح کے مذہبی ایشوزکوہوادیکر فرقہ ورانہ کشیدگی اوراشتعال پیداکرنے کی منظم کوشش ہورہی ہے، جمعیۃعلماء ہند ان حالات میں اپنے بزرگوں کے بتائے ہوئے راستہ پر چل رہی ہے، جمعیۃعلماء ہند اپنے قیام سے اب تک ان اصولوں پر گامزن ہیں جو ان کے اکابرین کا اصول رہاتھا اوریہ اصول پیارومحبت، اتحاداوریکجہتی کا اصول ہے کیونکہ ان کایہ مانناتھا کہ ہم خواہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں ملک کااتحاداورسالمیت ہماری اولیت ہونی چاہئے اوریہ اتحادوسالمیت تبھی برقراررہ سکتی ہے جب ہندومسلم سکھ اورعیسائی کاندھے سے کاندھاملاکرایک ساتھ کھڑے ہوں، ملک کے موجودہ حالات پر اپنی گہری تشویش کااظہارکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج سب سے بڑاخطرہ اس سیکولردستورکو لاحق ہے جس نے ملک کے تمام شہریوں کو یکساں حقوق اوراختیارات دیئے ہیں اس دستورمیں ملک کی اقلیتوں کو خصوصی اختیارات بھی دیئے گئے ہیں مگر اب ان اختیارات کو چھین لینے کی کوشش ہورہی ہے، مولانا مدنی نے ایک بارپھر کہا کہ ملک کادستورسیکولردستورجمعیۃعلماء ہند کی دین ہے، انہوں نے کہا کہ اس سیکولردستورنے ہی ہر شہری کو مذہبی آزادی بھی اوراپنی پسند کا مذہب اپنانے اوراس کی تبلیغ کرنے کا اختیاردیاہے اسی دستورنے ہمیں اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اورانہیں چلانے کی مکمل آزادی دی ہے، مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ مذہبی آزادی کہاہے؟ کبھی ان مدارس کو بندکرنے کی سازش ہورہی ہے توکبھی یکساں سول کوڈلانے کا سوشہ چھوڑاجاتاہے وقف ترمیمی بل ہماراآج کا سب سے بڑامسئلہ ہے جس کے ذریعہ ہماری وقف املاک کو ہڑپ لینے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، اس طرح کے اعتماداورکوششیں دستورکے رہنمااصولوں کی صریحاخلاف ورزی ہے اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ آئین کا تحفظ بہت ضروری ہے، پچھلے کچھ برسوں کے دوران ملک میں جو یک رخی سیاست کی جارہی ہے اس نے آئین کے وجودپر سوالیہ نشان لگادیاہے بظاہر آئین کی قسمیں کھائی جاتی ہیں اس کا قصیدہ پڑھاجاتاہے لیکن سچائی یہ ہے کہ آئینی احکامات کی صریحاخلاف ورزی کرکے ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو نت نئے حربوں سے پریشان کیا جارہاہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات میں اب کوئی شبہ نہیں رہاکہ ملک پوری طرح فسطائیت کی گرفت میں ہے ایسے میں ہماری ہی نہیں ملک کے ان تمام شہریوں کی جو ملک کی آئین اورجمہوریت میں یقین رکھتے ہیں،یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کو بچانے کے لئے آگے آئیں کیونکہ اگر آئین کی بالادستی ختم ہوئی توپھر جمہوریت بھی زندہ نہیں رہ سکے گی۔ آسام شہریت معاملہ، بلڈوزرکارروائی،مدارس کے خلاف کارروائی اور ہلدوانی فسادجیسے ایشوزکا ذکرکرتے ہوئے مولانا مدنی نے ان پر سپریم کورٹ کے ذریعہ دیئے گئے حالیہ فیصلوں کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ سپریم کورٹ لاچاراور بے بس انسانوں کی پناہ گاہ بن رہا ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ فرقہ پرست جمعیۃعلماء ہند پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کو پناہ دیتی ہے، یہ سراسرلغواوربے بنیادالزام ہے، جمعیۃعلماء ہند کسی دہشت گردکو پناہ نہیں دیتی بلکہ ان بے بس اورلاچار انسانوں کو قانونی مددفراہم کرتی ہے جنہیں دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں جیلوں میں ٹھوس دیا گیا مولانامدنی نے وقف ترمیمی بل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اوقاف ہمارے آباواجدادکا ورثہ ہے اوراللہ کی ملکیت ہے مگر اب جوترمیمی بل لایاجارہاہے ہم اس کو پوری طرح مستردکرتے ہیں ہم ایسے کسی قانون کو تسلیم نہیں کرسکتے جس سے وقف کی صورت حال اورواقف کی منشاہی بدل جائے انہوں نے سوال کیا کہ آخرایک مخصوص فرقہ کے خلاف ہی ایسا کیوں ہورہاہے؟ کیا مذہب کی بنیادپر انہیں جینے کا حق نہیں؟ انہوں نے انتباہ کیا کہ مذہب کی بنیادپر عوام کو تقسیم کرنا ملک کو کمزورکرنا ہے،یہ جوکچھ ہورہاہے اس کو دیکھتے ہوئے ہمیں مجبورہوکر کہناپڑرہاہے کہ فرقہ پرست طاقتیں اسلام اورمسلمان دونوں کو مٹادینے کے درپے ہیں مگر انہیں شاید یہ معلوم نہیں کہ اسلام کا یہ چراغ کبھی نہیں بجھے گااورجن لوگوں نے اسے بجھانے کی کوشش کی وہ خودبجھ گئے، مولانا مدنی نے ان بیساکھیوں کا خاص طورپر ذکر کیا جن پر موجودہ حکومت ٹکی ہوئی ہے، اورکہا کہ اگر خدانخواستہ وقف ترمیمی بل منظورہوجاتاہے تو اس کی ذمہ داری سے وہ پارٹیاں بھی نہیں بچ سکتیں جن کی حمایت سے یہ سرکارچل رہی ہے انہوں نے کہا کہ فرقہ پرست نظریہ کی پالیسی ملک کے اتحاداوریکجہتی کے لئے ایک بڑاخطرہ ہے اور جو لوگ اس پالیسی کے حامی ہیں انہیں یہ بات یادرکھنی چاہئے کہ اخوت وہمدردی اورپیارومحبت سے ہی یہ ملک زندہ رہ سکتاہے، نفرت اورمذہب کی بنیادپر کی جانے والی تقسیم ملک کو تباہ وبربادکردیگی،اپنے خطاب کے دوران مولانا مدنی نے فلسطین میں جارحیت ظلم وبربریت پر اپنی گہری تشویش کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل امریکہ کی مددسے غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کررہاہے اورپوری دنیاخاموش تماشائی بنی ہوئی ہے انسانی حقوق کی وکالت کرنے والے بھی چپ ہیں اوراقوام متحدہ کا جنرل سکریٹری ایک بیان جاری کرکے چپ ہوجاتاہے انہوں نے کہا کہ اسرائیل ایک غاصب ہے جس نے فلسطین پر قبضہ کررکھاہے اورفلسطینی اس قبضہ سے اپنے ملک کوآزادکرانے کی جنگ لڑرہے ہیں۔ اسٹیڈیم میں موجودلوگوں کو مولانا مدنی نے تلقین کی کہ وہ محبت کے پیغام کو عام کریں کیونکہ ایسا کرکے ہی فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دی جاسکتی ہے، کنونشن کا آغاز قاری شمس الدین کی تلاوت کلام پاک اورمفتی سیدمعصوم ثاقب جنرل سکریٹری جمعیۃعلماء ہند کی نظامت سے ہوا۔ جمعیۃعلماء ہند ے نائب صدرمولانا اسجدمدنی نے کنونشن کے اغراض ومقاصدپر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جب دستورموجودہے آپ کی حفاظت ہوتی رہے گی مگر آج سب سے بڑامسئلہ دستورکے تحفظ کاہے، اسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند آج اس تحفظ آئین ہند کنونشن کا انعقادکیا ہے، جمعیۃعلماء اترپردیش کے صدرمولانا سیداشہدرشیدی نے اپنی مختصرتقریرمیں کہا کہ ملک کے حالات پریشان کن ضرورہیں مگر مایوس کن نہیں ہیں، سیدازہرمدنی اصلاح معاشرہ پر ایک پراثرتقریرکی اورکہا کہ اصلاح معاشرہ جمعیۃعلماء ہند کے بنیادی کاموں میں سے ایک ہے، مسلم پرسنل لاء بورڈکے صدرمولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے وقف ترمیمی بل پر مرکوزاپنی تقریرمیں ترمیمی نکات کے بارے میں تفصیل دیتے ہوئے کہا کہ یہ بہت خطرناک ترمیم ہے اوراگر یہ بل منظورہوگیا توہماری مساجد، مقابر، درگاہ اورقبرستانوں کا وجودخطرہ میں پڑجائے گا، سپریم کورٹ کے وکیل فضیل ایوبی نے ان ترمیمات کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالی جو مجوزہ بل میں کی گئی ہیں، چندرابابوڈائیڈوکے قریبی اورتلگودیشم پارٹی کے نائب صدرنواب جان عرف امیربابونے کہا کہ وقف کو ہڑپنے کے لئے جوکوشش ہورہی ہے اس کو ناکام بنانے کے لئے ہمیں متحدہوکر آگے بڑھناہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ نائیڈوجی ایک سیکولرذہن کے لیڈرہیں اورہمیں پورایقین ہے کہ وہ اس بل کو منظورہونے سے روکنے کے لئے ہرممکن کوشش کریں گے۔ قابل ذکرہے کہ کنونشن میں بہت اہم پانچ تجاویز بھی پیش کی گئیں جس میں سب سے پہلی تجویزمیں فلسطین میں امریکہ کی پشت پناہی میں جاری اسرائیل کی جارحیت اور دہشت گردی کی مذمت کی گئی اورعالمی برادری سے ٹھوس اقدامات کرنے کی اپیل بھی کی گئی اس تجویزکے متن کو تلنگانہ جمعیۃعلماء کے ناظم اعلیٰ مفتی زبیرنے پیش کیا، دوسری تجویز مدارس اسلامیہ اوراس کے تشخص سے متعلق تھی جسے مفتی اشفاق اعظمی نائب صدرجمعیۃعلماء اترپردیش نے پیش کیا تیسری تجویز یکساں سول کوڈسے متعلق مولانا محمد مسلم قاسمی صدرجمعیۃعلماء دہلی چوتھی تجویز آئین ہند کی تحفظ سے متعلق پروفیسر نصراللہ مدراس نے پیش کیا اورپانچویں تجویز ایڈوکیٹ فضیل ایوبی نے پیش کیا اس کے علاوہ جماعت اسلامی ہند کے نائب امیراورجمعیۃاہل حدیث ہند کے مولانا اصغرعلی امام مہدی سلفی نے بھی شرکت کی، پروگرام میں جمعیۃعلماء ہند کی ورکنگ کمیٹی کے متعدداراکین گرامی اورصوبائی جمعیۃعلماء کے صدراورجنرل سکریٹری صاحبان نے بھی شرکت کی۔ ف