جامعہ کے ۱۰۵ ویں یومِ تاسیس کے موقع پر پروفیسر مظہر آصف کی سرپرستی میں حضرتِ کلیم عاجز کو یادگار خراجِ عقیدت

نئی دہلی (۱؍ نومبر):

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ۱۰۵ ویں یومِ تاسیس کے موقع پر وائس چانسلر پروفیسر مظہر آصف کی سرپرستی اور شعبۂ اردو کی میزبانی میں حضرتِ کلیم عاجز کو یاد کرتے ہوئے جامعہ کے وسیع و کشادہ انصاری لان میں ایک شاندار کل ہند مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔

اس یادگار جشن کے اہتمام میں رجسٹرار پروفیسر محمد مہتاب عالم رضوی، ڈی ایس ڈبلیو پروفیسر نیلوفر افضل اور کنوینر مشاعرہ صدر شعبۂ اردو پروفیسر کوثر مظہری کی سربراہی اور نگرانی کا اہم کردار رہا۔ مشاعرہ گاہ کی تزئین و آرائش اور ہزاروں سامعین کی پرجوش موجودگی نے اس مشاعرے کو ایک ناقابلِ فراموش لمحہ بنا دیا۔ اس موقع پر پروفیسر کوثر مظہری نے پروفیسر مظہر آصف، پروفیسر محمد مہتاب عالم رضوی اور پروفیسر نیلوفر افضل کا استقبال کیا۔ اس کے بعد شیخ الجامعہ پروفیسر مظہر آصف نے تمام شعرائے کرام کا فرداً فرداً میمنٹو اور تقریبی شال سے خیرمقدم کیا۔

مشاعرے کی صدارت عہدِ حاضر کے ممتاز شاعر پروفیسر شہپر رسول اور دلکش لب و لہجے کے عالمی شہرت یافتہ ناظمِ مشاعرہ معین شاداب نے نظامت کے فرائض نہایت خوب صورتی اور وقار کے ساتھ انجام دیے۔ مشاعرے میں ملک بھر کے مقبولِ عام شعرا شامل ہوئے، جنھیں ہزاروں سامعین نے پرجوش اور محبت آمیز داد و تحسین سے نوازا۔ ان شعراء میں ماجد دیوبندی، عقیل نعمانی، شکیل اعظمی، خورشید حیدر، احمد محفوظ، ظفر حبیبی، رینو حسین، عزم شاکری، مشتاق صدف، رحمان مصور، معید رشیدی، عادل حیات اور خالد مبشر نے اپنے اپنے منفرد رنگ و آہنگ میں اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔ صدرِ مشاعرہ نے اس مشاعرے کو حضرتِ کلیم عاجز سے منسوب کرنے پر خصوصی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کہ ۱۰۵ویں یومِ تاسیس کے موقع پر ماضی قریب کی عوامی سائیکی کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والے شاعر کلیم عاجز کو یاد کیا جانا نہایت لائق تحسین اور خوش آئند ہے۔

انھوں نے وائس چانسلر اور جامعہ انتظامیہ کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ عرصۂ دراز کے بعد جامعہ تعلیمی میلے کی اس قدر شاندار بازیافت ہوئی ہے۔ مشاعرے کے اختتام پر کنوینر مشاعرہ پروفیسر کوثر مظہری نے ہدیۂ تشکر پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس قدر بھرپور اور کامیاب مشاعرے کا انعقاد وائس چانسلر پروفیسر مظہر آصف، رجسٹرار پروفیسر محمد مہتاب عالم رضوی اور ڈی ایس ڈبلیو پروفیسر نیلوفر افضل کے غیرمعمولی تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ ملک بھر سے مشہور شعرائے کرام نے نہایت خوشدلی کے ساتھ اس میں شرکت کی اور ہزاروں سامعین نے اپنے نفیس و نستعلیق ذوق و شوق کا مظاہرہ کیا۔ مشاعرے کی انتظامیہ کمیٹی کے اراکین ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر نوشاد منظر، ڈاکٹر خان رضوان، ڈاکٹر شاہ نواز فیاض، فیضان احمد کیفی، سفیر صدیقی اور محمد طلحہ نے بحسن و خوبی انتظامی امور انجام دیے۔ 

اس یادگار مشاعرے میں پیش کیے گئے منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیں: 

تم کو پکارتے ہیں ہمیں دیکھتے ہیں لوگ

جیسے کہ ایک ہی ہو ہمارا تمھارا نام

شہپر رسول

جو محنتوں مشقتوں سے حل نہ ہو سکے کبھی

وہ سارے کام ماں کی اک دعا سے ہو کے رہ گئے

ماجد دیوبندی

پیاس کے ذکر کو رکھتا ہوں جدا پانی سے

دیکھتے رہتے ہیں دریا مجھے حیرانی سے

عقیل نعمانی

اب تو بدنامی سے شہرت کا وہ رشتہ ہے کہ لوگ

ننگے ہو جاتے ہیں اخبار میں رہنے کے لیے

شکیل اعظمی

مری جانب محبت سے نہ دیکھو

محبت پر زوال آیا ہوا ہے

خورشید حیدر

ہنگامۂ وحشت تھا جہاں جشن جنوں میں

دیکھا تو وہاں کوئی دِوانہ ہی نہیں تھا

احمد محفوظ

پہلے پیدا کرے شبنم کا جگر پہلو میں

عشق کی آگ میں جو آدمی جلنا چاہے

ظفر حبیبی

ہماری جان کا دشمن بنا ہوا ہے وہی

جو ہم یہ کہتا تھا زندگی ہو تم

معین شاداب

فلک کے چاند کی خواہش کو سرخ رو کرنا

گناہ تو نہیں ہے تیری آرزو کرنا

رینو حسین

مجھ کو تو ہوش ہی نہ تھا عیش و نشاط ہجر میں

رات کے آخری پہر چاند زمیں پہ آ گیا

عزم شاکری

محبت میں کبھی مجھ کو کسی سے ڈر نہیں لگتا

اگر محشر بھی برپا ہو تو وہ محشر نہیں لگتا

مشتاق صدف

تو یوں ہوا مجھے خود کو ہی دھول کرنا پڑا

وہ جیسا تھا اسے ویسا قبول کرنا پڑا

رحمان مصور

اپنی ذات سے آگے جانا ہے جس کو

اس کو برف سے پانی ہونا پڑتا ہے

معید رشیدی

میں بھی اپنی باتوں سے کچھ جادو سا کر دیتا ہوں

وہ بھی انکاری لہجے میں کرتا ہے اقرار بہت

عادل حیات

اے خاکِ ہند بول کہ تو جانتی ہے سب

کچھ تو بتا کہاں مرے لعل و ہنر گئے

خالد مبشر