انسانی تاریخ کے ہر دور میں مہاجرت ہوتی رہی ہے تاہم یہ مسئلہ عام طور پر سنسنی خیز بیانیوں اور شہ سرخیوں میں دب کر رہ جاتا ہے جن کے باعث حقائق سامنے نہیں آ پاتے۔

عندلیب اختر

اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (IOM) کی تازہ ترین ورلڈ مائیگریشن رپورٹ 2024 کے مطابق متحدہ عرب امارات (UAE) ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کے لیے سب سے بڑا مرکز بن کر ابھرا ہے۔ آئی او ایم کی جاری کردہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ سال 2020 میں 34.7 لاکھ ہندوستانی متحدہ عرب امارات میں رہ رہے تھے۔ دوسرے نمبر پر 27 لاکھ لوگ امریکہ اور 25 لاکھ سعودی عرب میں مقیم تھے۔


اگر عالمی صورتحال پر نظر ڈالیں تو تقریباً 11 ملین میکسیکن امریکہ میں رہ رہے ہیں۔ اس کے بعد شامی عرب جمہوریہ سے ترکی اور روس سے یوکرین تک راہداری ہے، جو خانہ بدامنی اور جنگ کی وجہ سے لوگوں کی نقل مکانی کے لیے بڑی حد تک ذمہ دار ہیں۔تاہم رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کس ملک کے لوگ سب سے زیادہ رقم ہندوستان بھیجتے ہیں۔ عالمی مائیگریشن رپورٹ منگل کو جاری کی گئی، جو 2000 سے ہر دو سال بعد آئی او ایم جاری کرتی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گزشتہ 50 سالوں سے دنیا کی آبادی میں بین الاقوامی مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ 1970 میں، کل آبادی میں مہاجرین کا حصہ صرف 2.3 فیصد (8.4 کروڑ) تھا، جو 2020 کے وسط میں بڑھ کر 3.6 فیصد (28 کروڑ) ہو گیا ہے۔


اس کے علاوہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان نے 2022 میں ترسیلات زر (تارکین وطن کی طرف سے بھیجی گئی رقم) سے 111 بلین ڈالر سے زیادہ وصول کیے ہیں، جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ہندوستان پہلا ملک ہے جس نے ترسیلات زر سے ایک سال میں 100 بلین ڈالر سے زیادہ رقم حاصل کی۔ ہندوستان کے بعد رقم وصول کرنے والے ممالک میکسیکو، چین، فلپائن اور فرانس ہیں۔


رپورٹ میں کہا گیا ہے، ‘اگر ہم دوسرے ممالک کو ملنے والی رقم کی حیثیت کو دیکھیں تو ہندوستان ان سے بہت اوپر ہے۔ ہندوستان کو 111 بلین ڈالر ملے ہیں اور وہ 100 بلین ڈالر کا ہندسہ عبور کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔ میکسیکو 2022 میں ترسیلات زر کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر تھا اور 2021 میں چین کو پیچھے چھوڑنے کے بعد اس پوزیشن پر برقرار ہے، جو کہ تاریخی طور پر ہندوستان کے بعد دوسرا سب سے بڑا وصول کنندہ ملک رہا ہے، اس نے کہا کہ زیادہ تر تارکین وطن جنوبی ایشیا سے دوسرے ممالک گئے ہیں۔ جس کی ترسیل یہاں سب سے زیادہ ہے۔ ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش تارکین وطن سے ترسیلات زر وصول کرنے والے سرفہرست 10 ممالک میں شامل ہیں۔ان علاقوں سے کارکنوں کی سب سے زیادہ نقل مکانی ہوئی ہے۔ ترسیلات زر خطے میں بہت سے لوگوں کے لیے بقا کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں، جب کہ کارکنوں کو مالی استحصال، امیگریشن کے اخراجات کی وجہ سے مقروض، کام کی جگہ پر امتیازی سلوک اور ہراساں کیے جانے سمیت متعدد خطرات کا سامنا ہے۔


عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) نے بتایا ہے کہ تارکین وطن کی جانب سے بھیجی جانے والی رقومات کا ان کے آبائی ممالک کی مجموعی قومی پیداوار کی ترقی میں کردار وہاں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری سے بھی بڑھ گیا ہے۔
ماضی قریب میں کووڈ۔19 کے باعث ترسیلات زر میں نمایاں کمی کے خدشات کے باوجود ان میں اضافہ جاری رہا ہے۔ 647 ارب ڈالر کی صورت میں ایسی بیشتر ترسیلات کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک کو بھیجی گئیں جو ان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا نمایاں حصہ تھیں۔


رپورٹ کی تقریب اجرا سے خطاب کرتے ہوئے ‘آئی او ایم’ کی ڈائریکٹر جنرل ایمی پوپ نے کہا ہے کہ اس رپورٹ کا مقصد مصدقہ معلومات اور تجزیے کے ذریعے انسانی نقل و حرکت کی پیچیدگیوں کو واضح کرنا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہجرت کے انداز میں بھی نمایاں تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اب بہت بڑی تعداد میں لوگ جنگوں، تشدد اور قدرتی و دیگر حوادث کے باعث بھی نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیں۔


رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگرچہ دنیا میں بیشتر لوگ انہی ممالک میں رہتے ہیں جہاں وہ پیدا ہوئے تھے تاہم اس وقت 28 کروڑ 10 لاکھ لوگ یا عالمی آبادی کا 3.6 فیصد مہاجرین پر مشتمل ہے۔ ان میں 11 کروڑ 70 لاکھ بے گھر افراد بھی شامل ہیں جو اب تک ان کی سب سے بڑی تعداد ہے۔


‘آئی او ایم’ نے کہا ہے کہ انسانی تاریخ کے ہر دور میں مہاجرت ہوتی رہی ہے تاہم یہ مسئلہ عام طور پر سنسنی خیز بیانیوں اور شہ سرخیوں میں دب کر رہ جاتا ہے جن کے باعث حقائق سامنے نہیں آ پاتے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ بیشتر مہاجرت باقاعدہ و محفوظ انداز میں اور مخصوص علاقوں میں ہوتی ہے جس کا براہ راست تعلق مواقع اور روزگار سے ہے۔ تاہم گمراہ کن اطلاعات اور سیاست کاری کے باعث اس مسئلے پر عام بات چیت حقائق کا احاطہ نہیں کرتی۔ ایسے میں مہاجرت کی حرکیات کو واضح اور درست طور سے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔