جی ایس ٹی 2.0” کو ”بچت کا تہوار” کہا جا رہا ہے، لیکن حقیقت میں متوسط طبقے کو جو راحت مل رہی ہے وہ بہت محدود ہے۔ تعلیم، صحت، اور رہائش جیسے شعبوں میں بڑھتی قیمتیں اس راحت کو کم کر دیتی ہیں۔اس کے علاوہ، متوسط طبقے کے لیے کوئی مخصوص سبسڈی یا چھوٹ نہیں ہے، جو اس طبقے کویہ احساس دلائے کہ وہ محض راحت کا تماشائی نہیں ہے۔

عندلیب اختر
جب سے اشیاء و خدمات ٹیکس (جی ایس ٹی) کا نفاذ ہوا ہے، اسے ایک تاریخی اصلاحات کے طور پر پیش کیا گیا، جس کا مقصد تھا ”ایک ملک، ایک ٹیکس” کا خواب پورا کرنا۔ وعدہ یہ تھا کہ اس سے ٹیکس نظام میں یکسانیت آئے گی، پیچیدگی کم ہوگی، دہرا ٹیکس ختم ہوگا اور سب سے بڑھ کر صارفین کو فائدہ پہنچے گا۔ مگر حقیقت میں خاص طور پر متوسط طبقے پر اس کے اثرات ایک متضاد تصویر پیش کرتے ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ جی ایس ٹی اس طبقے کے لئے نعمت ہے، لیکن عام گھریلو خاندان اکثر سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا وہ واقعی فائدہ اٹھا رہے ہیں یا ایک نئے اور زیادہ مبہم بوجھ تلے دب گئے ہیں۔حکومتِ ہند نے جب 22 ستمبر 2025 سے جی ایس ٹی اصلاحات کا دوسرا مرحلہ نافذ کیا، تو وزیراعظم نریندر مودی نے اسے ”ڈبل بونانزا” یعنی دوہری خوشخبری قرار دیا — ایک طرف جی ایس ٹی میں سادگی، دوسری طرف انکم ٹیکس میں چھوٹ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ اصلاحات متوسط طبقے کے لیے بچت کا تہوار ہیں، یا صرف ایک مالیاتی چال؟


جی ایس ٹی اصلاحات کا مقصد
2017 میں نافذ ہونے والا جی ایس ٹی نظام کئی ریاستی و مرکزی ٹیکسز کو ختم کرکے ایک متحدہ نظام لایا۔ اس کا مقصد تھا:- کاروباری طبقے کے لیے آسانی – اب پرانے چار سلیب (5، 12، 18 اور 28 فیصد) کو ختم کر کے صرف دو بنیادی سلیب – 5 اور 18 فیصد رکھے گئے ہیں۔ اسی کے ساتھ 40 فیصد کی خصوصی شرح عیاشی اور“سِن اشیاء”جیسے سگریٹ، گٹکا، شکر والی کولڈ ڈرنکس اور مہنگی مصنوعات پر لاگو ہے۔تقریباً 99 فیصد اشیاء جو پہلے 12 فیصد پر تھیں، اب 5 فیصد پر آگئیں۔قریب 90 فیصد وہ سامان جو 28 فیصد پر تھا، اب 18 فیصد پر منتقل ہوا۔روزمرہ اشیاء، کھانے پینے کا سامان، صابن، ٹوتھ پیسٹ اور برقی آلات اب سستے ہوگئے ہیں۔وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے کہا کہ اس اصلاح سے دو لاکھ کروڑ روپے کے مساوی سرمایہ معیشت میں واپس آئے گا کیونکہ عوام کے ہاتھ میں زیادہ پیسہ بچے گا۔
اس سے توقع ہے کہ:- عام اشیاء سستی ہوں گی – کاروباروں کے لیے حساب کتاب آسان ہوگا – صارفین کا خرچ بڑھے گا – معیشت کو رفتار ملے گی ۔


کیا یہ واقعی ”بچتوں کا تہوار” ہے؟
تازہ ترین جی ایس ٹی اصلاحات، جنہیں عام طور پر ”جی ایس ٹی 2.0” کہا جا رہا ہے، نے ٹیکس کی شرحوں میں نمایاں کمی کی ہے۔ حکومت کا بیانیہ ہے کہ اس سے متوسط طبقے کے لئے ”بچتوں کا تہوار” شروع ہوگیا ہے۔روزمرہ کی اشیاء سستی – کھانے پینے کی پیکڈ اشیاء (بسکٹ، چاکلیٹ، پاستا)، صابن، شیمپو اور ٹوتھ پیسٹ جیسے گھریلو سامان اب 5 فیصد کی کم شرح پر آ گئے ہیں۔ ایک اوسط گھریلو خاندان کے لئے یہ تبدیلی ہر ماہ گروسری کے خرچ میں واضح کمی پیدا کرسکتی ہے۔ خواہشات کی تکمیل میں آسانی – ٹی وی، واشنگ مشین اور فریج جیسے گھریلو آلات پر جی ایس ٹی کی شرح 28 فیصد سے کم ہو کر 18 فیصد ہوگئی ہے۔ دو پہیہ گاڑیوں اور چھوٹی کاروں پر بھی ٹیکس گھٹایا گیا ہے۔ اس سے متوسط طبقے کے لئے اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے امکانات بڑھے ہیں۔


خدمات میں ریلیف – لائف اور ہیلتھ انشورنس پالیسیوں پر اب جی ایس ٹی لاگو نہیں ہوتا، جس سے خاندانوں کو مالی تحفظ پر ہزاروں روپے کی بچت ہوگی۔ اسی طرح کم قیمت والے ہوٹلوں میں قیام اور بیوٹی سروسز پر بھی ٹیکس کمی نے گھریلو سیاحت اور مقامی اخراجات کو فروغ دیا ہے۔نظام کی سادگی – بڑے پیمانے پر دیکھا جائے تو جی ایس ٹی نے ٹیکس نظام کو آسان بنایا ہے۔ مختلف ریاستی و مرکزی ٹیکسوں کو یکجا کر کے ایک ڈیجیٹل نظام نے شفافیت بڑھائی اور ٹیکس چوری کے امکانات کم کئے۔ یہ مستقبل میں ایک زیادہ منصفانہ نظام کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔


کیا عوام کے ساتھ ”فریب” ہوا ہے؟
اگرچہ سرکاری دعویٰ بچتوں کا ہے، مگر زمین پر صورتِ حال کچھ اور ہے۔ کئی متوسط گھرانوں کو جی ایس ٹی نے سہولت سے زیادہ بوجھ کا احساس دیا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کاروباری ادارے کم شدہ ٹیکس کا فائدہ صارف تک نہیں پہنچاتے۔ حکومت نے شرحیں کم کیں مگر اکثر کمپنیاں یہ بچت اپنی جیب میں ڈال لیتی ہیں، جس کے نتیجے میں صارف کو قیمت میں کوئی خاص کمی نظر نہیں آتی۔چھوٹے کاروبار پر دباؤ – متوسط طبقے کا بڑا حصہ صرف صارف نہیں بلکہ چھوٹے کاروباری بھی ہے۔ ان کے لئے جی ایس ٹی نے نئی پیچیدگیاں پیدا کی ہیں۔ لازمی ڈیجیٹل فائلنگ، انوائس اور ریکارڈ کی شرط نے ان پر اضافی بوجھ ڈال دیا ہے۔ اکثر کو ٹیکس ماہرین کی خدمات لینی پڑتی ہیں، جو اخراجات بڑھا دیتی ہیں۔بالواسطہ ٹیکس کا ”غیر منصفانہ” اثر – اگرچہ جی ایس ٹی کو مختلف درجوں میں بانٹا گیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بالواسطہ ٹیکس ہمیشہ سے غیر مساوی رہا ہے۔ ایک غریب یا متوسط گھرانے کے بجٹ پر وہی ٹیکس زیادہ بوجھ بنتا ہے جو کسی امیر فرد کے لئے نہ ہونے کے برابر ہے۔ کئی متوسط گھرانے اگرچہ خوش ہیں مگر مکمل مطمئن نہیں۔ دہلی کے ایک سرکار ی کلرک کا کہنا ہے:“ہاں، ٹوتھ پیسٹ اور پنییر سستا ہوا ہے، لیکن اسکول فیس، کرایہ اور پٹرول تو وہی ہیں۔ اصل بچت کہاں ہے؟”یہی وہ احساس ہے جو عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ اصل فائدہ محدود ہے اور بڑے اخراجات پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔
سلیب اور ابہام – اگرچہ نئے نظام نے شرحوں کو محدود کیا ہے، پھر بھی مختلف اشیاء و خدمات پر الگ الگ درجہ بندی عام صارف کے لئے کنفیوژن پیدا کرتی ہے۔ مثال کے طور پر کچھ پراسیسڈ فوڈ کم شرح پر ہیں جبکہ ملتے جلتے دوسرے کھانے زیادہ شرح پر۔


ماہرین کا کہنا ہے کہ جی ایس ٹی 2.0 کی کامیابی کا انحصار ان اقدامات پر ہوگا: قیمتوں میں کمی کا فائدہ واقعی صارف تک پہنچے۔ حکومت آمدنی کے گروپوں کے حساب سے شفاف رپورٹ جاری کرے۔چھوٹے تاجروں کو مزید سہولت دی جائے تاکہ وہ اضافی بوجھ نہ ڈالیں۔مہنگائی پر قابو پایا جائے تاکہ جی ایس ٹی کا فائدہ ضائع نہ ہو۔


جی ایس ٹی اصلاحات متوسط طبقے کے لئے ایک دو دھاری تلوار ہیں۔ ایک طرف جہاں روزمرہ اشیاء اور خواہشات کی چیزیں سستی ہوئیں، جس سے گھریلو بجٹ میں کچھ ریلیف ملا۔ دوسری طرف، چھوٹے کاروبار کے اخراجات بڑھے اور صارفین کو اب بھی یقین نہیں کہ ٹیکس میں کمی کا اصل فائدہ انہیں ملا ہے یا نہیں۔حکومت کی نیت شفاف اور یکساں ٹیکس نظام بنانے کی ہے، لیکن جب تک مؤثر نفاذ اور سخت نگرانی نہیں ہوگی، ”بچتوں کا تہوار” صرف سرخیوں تک محدود رہے گا۔