عندلیب اختر
برازیل میں ہونے والے G20 رہنماؤں کے اجلاس نے رہنماؤں کا ایک اعلامیہ جاری کیا ہے جس نے باکو میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس (COP29) میں ایک نئے موسمیاتی مالیاتی ہدف پر متفق ہونے کی ضرورت پر ایک مثبت اشارہ بھیجا ہے۔ تحفظ ماحول کے اقدامات کے لیے اعلیٰ سطحی سفارتی کوششوں کا رخ برازیل میں جی 20 رہنماؤں کی کانفرنس کی جانب منتقل ہوا جہاں سے آذربائیجان میں ‘کاپ 29’ کے مذاکرات کاروں کو واضح پیغام دیاگیا کہ موسمیاتی وسائل کا حجم فوری طور پر اربوں سے کھربوں ڈالر تک بڑھانا ہو گا۔ دنیا کی بڑی معیشتوں اور گرین ہاؤس گیسیں خارج کرنے والے بڑے ممالک کی جانب سے گرچہ اس ضمن میں جاری کردہ بیان میں ‘معدنی ایندھن کا استعمال ترک کرنے’ کی کوئی واضح بات نہیں کی گئی جس پر گزشتہ سال ‘کاپ 28’ میں اتفاق ہوا تھا۔ تاہم، جی 20 رہنماؤں نے اس بات چیت کے حوالے سے متوازن اور پرعزم نتائج کا خیرمقدم کیا ہے۔
۔ COP29 گرینپیس وفد کے سربراہ نے کہا: ”یہ G20 کی طرف سے ایک مثبت اشارہ ہے، کہ اپنے اختلافات کے باوجود، انہوں نے COP29 میں نئے موسمیاتی مالیاتی ہدف پر طے پانے والے معاہدے کے لیے اپنی حمایت کی تصدیق کی ہے۔ اس رفتار کو اب باکو میں ٹھوس نتائج میں ترجمہ کیا جانا چاہیے۔ COP29 کی سست پیشرفت کے درمیان، دنیا کو تقسیم کو ختم کرنے کے طریقے تلاش کرنا ہوں گے کیونکہ بڑھتے ہوئے آب و ہوا کے اثرات کسی بھی ملک کو نہیں بخشیں گے اور مشترکہ طور پر کارروائی کرنا ہمارے بہترین مفاد میں ہے۔”
جی 20 کا اعلامیہ ایسے موقع پر آیا ہے جب ‘کاپ 29’ اپنے اختتامی مراحل کی جانب بڑھ رہی تھی۔ کانفرنس میں ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصان اور تباہی کا ازالہ کرنے کے لیے نئے اور مزید مالی وسائل کی فراہمی اور ماحول دوست توانائی کی جانب تیز رفتار منتقلی کے اہداف پر پیچیدہ گفت و شنید سست روی کا شکار ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بعض ممالک اپنے موقف پر اڑے ہیں اور دوسروں کے موقف میں نرمی کے منتظر ہیں۔اس سے قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے جی 20 رہنماؤں پر زور دیا تھا کہ وہ ‘کاپ 29’ میں شریک اپنے وزرا اور مذاکرات کاروں کو موسمیاتی اقدامات کے حوالے سے جلد از جلد ایک نیا اور پرعزم مالیاتی ہدف طے کرنے کو کہیں۔
حدت میں خطرناک اضافہ
جی 20 ممالک کی کانفرنس میں پائیدار ترقی اور قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کے موضوع پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کر گیا ہے۔ عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حدود میں رکھے بغیر بڑھتی ہوئی قدرتی آفات کو روکا نہیں جا سکتا جو ہر معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔تاہم، انہوں نے کہا کہ موجودہ پالیسیاں دنیا کو ایسی سمت میں لے جا رہی ہیں جہاں عالمی حدت میں اضافہ قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں تین ڈگری سیلیئس سے بھی تجاوز کر جائے گا۔ اسی لیے رواں دہائی میں ہر سال گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں نو فیصد تک کمی لانا ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے ان گیسوں کا اخراج بدستور جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ 80 فیصد گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج دنیا کی بڑی معیشتوں سے ہوتا ہے اور اسے روکنے کی بڑی ذمہ داری بھی انہی ممالک کی ہے۔
معدنی ایندھن کا مسئلہ
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر قابو پانے کے لیے معدنی ایندھن کا استعمال ختم کر کے قابل تجدید توانائی کی جانب مراجعت کرنا ہو گی جو اب ہر جگہ نئی بجلی کا سستا ترین ذریعہ بن چکی ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ اس معاملے میں تاخیر اور ناانصافی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس تبدیلی سے متاثر ہونے والے کارکنوں اور لوگوں کو مدد دی جانی چاہیے اور معیشتوں کو متنوع بنانے کی ضرورت ہے تاکہ نوکریاں کھلیں اور خوشحالی آئے۔ دنیا کو اس جانب درست سمت میں رکھنے کے لیے ہر ملک کو آئندہ برس ٹھوس قومی موسمیاتی منصوبے پیش کرنا ہوں گے۔گزشتہ ہفتے برازیل اور برطانیہ نے موسمیاتی اقدامات کے حوالے سے اپنے نئے منصوبے پیش کیے جو کہ اچھا آغاز ہے ہر ملک کو 1.5 ڈگری کا ہدف مدنظر رکھتے ہوئے 2030 اور 2035 کے لیے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کے حوالے سے غیرمبہم اہداف مقرر کرنا ہوں گے۔ اس ضمن میں معیشت کے تمام شعبوں سے ہر طرح کی گرین ہاؤس گیس کے اخراج پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔
موسمیاتی امور پر اطلاعاتی دیانت
انہوں نے موسمیاتی مسئلے پر غلط اطلاعات کے پھیلاؤ کو نقصان دہ قرار دیتے ہوئے اس پر قابو پانے کی ضرورت بھی واضح کی۔سیکرٹری جنرل نے برازیل کے صدر لولا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ برازیل اور اپنے تعلیم، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو)کے اشتراک سے موسمیاتی تبدیلی پر اطلاعاتی دیانت کا عالمگیر پروگرام شروع کر رہا ہے۔اس ضمن میں محققین اور شراکت داروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے موسمیاتی مسئلے پر غلط اطلاعات کا تدارک کرنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
دریں اثنا موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن (یو این ایف سی سی سی) کے ایگزیکٹو سیکرٹری سائمن سٹیئل نے کہا ہے کہ جی 20 رہنماؤں کے عزائم حوصلہ افزا ہیں اور ‘کاپ 29’ کی کامیابی سے پوری دنیا کو فائدہ ہو گا۔سائمن سٹیئل نے کہا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں کے رہنماؤں نے عالمی مالیاتی اداروں اور نظام میں اصلاحات لانے کا عزم بھی کیا ہے تاکہ تمام ممالک مضبوط موسمیاتی اقدامات کے قابل ہو سکیں۔ قرضوں کے بحران، موسمیاتی تباہی کے خطرے، سپلائی چین میں خلل اور شدید مہنگائی جیسے مسائل کا سامنا کرنے والی دنیا کو ان ممالک کی جانب سے ایسے ہی اشارے کی ضرورت تھی۔انہوں نے جی 20 ممالک کے مندوبین سے کہا کہ وہ کاپ میں فیصلہ کن اقدامات کریں۔ اب انہیں اپنے رہنماؤں کی جانب سے آگے بڑھنے کا حکم مل چکا ہے لہٰذا سبھی کو تمام مسائل پر اتفاق رائے کے لیے تیزرفتار پیش رفت کرنا ہو گی۔
یومِ خوراک، زراعت و پانی
‘کاپ 29’ میں ‘خوراک، پائیدار زراعت اور پانی’ سے متعلق امور پر بات چیت کے موقع پر اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) کے ایک نئے تجزیے یں بتایا گیا کہ تقریباً تمام ممالک نے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اپنے قومی منصوبوں میں زرعی غذائی نظام کے تحفظ کو ترجیح بنایا ہے۔ اس ضمن میں موسمیاتی مسائل سے مطابقت پیدا کرنے کے معاملے میں 94 فیصد ممالک نے اس شعبے کو ترجیح دی ہے جبکہ 91 فیصد ممالک نے اس تبدیلی کے اثرات کو محدود رکھنے کے منصوبوں میں زرعی غذائی تحفظ کو اپنی ترجیح قرار دیا ہے۔
‘ایف اے او’ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل وایورل گوٹو نے کہا کہ 730 ملین لوگ بھوک کا شکار ہیں جبکہ موسمیاتی تبدیلی غذائی عدم تحفظ کا ایک نمایاں محرک ہے۔ غذائی تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع کے نقصان، ارضی انحطاط اور پانی کی کمیابی جیسے متعدد مسائل کو حل کرنے کے لیے زرعی غذائی نظام کو تحفظ دینے کی خاص اہمیت ہے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ مالی وسائل اور سرمایہ کاری اس نظام میں درکار تبدیلی لانے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے فراہم کردہ تمام مالی وسائل میں زرعی غذائی نظام کا حصہ 37 فیصد سے کم ہو کر 23 فیصد پر آ گیا ہے۔ اگرچہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں زرعی شعبے کا بھی حصہ ہے، تاہم درست سمت میں اقدامات کر کے اس شعبے کو یہ بحران ختم کرنے میں مددگار بنایا جا سکتا ہے۔