Last Updated on December 30, 2025 1:57 pm by INDIAN AWAAZ

ذاکر حسین، ڈھاکہ
بنگلہ دیش کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم، تین مرتبہ حکومت کرنے والی رہنما، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی سربراہ اور جنوبی ایشیا کی نمایاں جمہوری قائدین میں شمار ہونے والی بیگم خالدہ ضیا طویل علالت کے بعد منگل کی صبح انتقال کر گئیں۔ ان کی عمر 80 برس تھی۔ بی این پی کے مطابق، مشرق کی “غیر مصالحتی قائد” کے نام سے جانی جانے والی خالدہ ضیا صبح تقریباً 6 بجے ڈھاکہ کے ایورکیئر اسپتال میں زیرِ علاج تھیں جب وہ انتقال کر گئیں۔
بی این پی نے اپنے سرکاری فیس بک پیج پر بیان میں کہا، “خالدہ ضیا فجر کی نماز کے فوراً بعد صبح تقریباً 6:00 بجے انتقال کر گئیں۔ ہم ان کی مغفرت کے لیے دعا گو ہیں اور عوام سے مرحومہ کے لیے دعا کی اپیل کرتے ہیں۔”
بی این پی کے مطابق، ان کی نمازِ جنازہ بدھ (31 دسمبر) کو ظہر کی نماز کے بعد دارالحکومت کے مانک میا ایونیو میں ادا کی جائے گی۔ مزید جنازہ نمازوں کے شیڈول کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
معالجین کے مطابق خالدہ ضیا گزشتہ کئی دنوں سے نہایت نازک حالت میں تھیں۔ 12 دسمبر کی شب ان کی صحت شدید طور پر بگڑنے کے بعد انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا۔ ان کے معالج اور میڈیکل بورڈ کے سربراہ، معروف کارڈیالوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر شہاب الدین تالکدر نے بتایا کہ “سانس کی دشواری میں اضافہ ہوا، آکسیجن کی سطح کم اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھ گئی تھی۔” انہوں نے کہا کہ اس سے قبل انہیں ہائی فلو نزل کینولا اور بائی پی اے پی سپورٹ دی جا رہی تھی، تاہم حالت میں بہتری نہ آنے پر “پھیپھڑوں اور دیگر اہم اعضا کو آرام دینے” کے لیے الیکٹو وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا۔
خالدہ ضیا کو 23 نومبر کو دل اور پھیپھڑوں کے انفیکشن کے باعث ایورکیئر اسپتال میں داخل کیا گیا تھا، جہاں بعد ازاں انہیں نمونیا بھی لاحق ہو گیا۔ وہ طویل عرصے سے متعدد امراض میں مبتلا تھیں، جن میں جگر کی شدید سروسس، ذیابیطس، گٹھیا اور گردوں، پھیپھڑوں اور دل سے متعلق دائمی پیچیدگیاں شامل تھیں۔ ان کے علاج کی نگرانی بنگلہ دیش، برطانیہ، امریکا، چین اور آسٹریلیا کے ماہرین پر مشتمل ایک کثیر القومی میڈیکل بورڈ کر رہا تھا۔ رواں ماہ کے اوائل میں بہتر علاج کے لیے انہیں بیرونِ ملک لے جانے کی کوشش کی گئی، مگر نازک حالت کے باعث یہ منصوبہ ترک کر دیا گیا۔
ان کے آخری لمحات میں اہلِ خانہ ان کے پاس موجود تھے، جن میں بڑے صاحبزادے اور بی این پی کے قائم مقام چیئرمین طارق رحمان، بہو ڈاکٹر زبیدہ رحمان، پوتی زائمہ رحمان، چھوٹی بہو شرمیلا رحمان سِتھی، بڑی بہن سلینہ اسلام، چھوٹے بھائی شمیم اسکندر اور بی این پی کے سیکریٹری جنرل مرزا فخرالاسلام عالمگیر سمیت پارٹی کے سینئر رہنما شامل تھے۔
خالدہ ضیا، سابق صدر اور آرمی چیف جنرل ضیاء الرحمٰن (بیر اُتّم) کی اہلیہ تھیں اور تین دہائیوں سے زائد عرصے تک بنگلہ دیشی سیاست کی ایک مضبوط اور غالب شخصیت رہیں۔ انہوں نے دو ادوار میں وزارتِ عظمیٰ سنبھالی: 1991 سے 1996 تک اور پھر 2001 سے 2006 تک، جب انہوں نے بی این پی کو انتخابی کامیابی دلائی۔ وہ بنگلہ دیش کی حکومت کی سربراہی کرنے والی پہلی خاتون اور مسلم اکثریتی ملک میں منتخب ہونے والی دوسری خاتون وزیرِ اعظم تھیں۔

خالدہ ضیا 1945 میں جلپائی گوڑی (اس وقت برطانوی ہندوستان کے صوبہ بنگال کا حصہ، موجودہ مغربی بنگال، بھارت) میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق ایک متوسط بنگالی مسلم کاروباری خاندان سے تھا اور انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کی۔ 15 برس کی عمر میں ایک پاکستانی فوجی افسر سے شادی کے بعد وہ طویل عرصے تک نجی زندگی گزارتی رہیں۔ 1971 کی جنگِ آزادی کے دوران، جب ان کے شوہر آزادی کی تحریک میں شامل ہوئے، خالدہ ضیا اپنے بچوں سمیت روپوش ہو گئیں اور بعد ازاں جنگ کے خاتمے تک پاکستانی افواج کی تحویل میں رہیں۔ 1981 میں ضیاء الرحمٰن کے قتل کے بعد ان کی سیاسی زندگی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
ابتدا میں ایک غیر متوقع رہنما سمجھی جانے والی خالدہ ضیا جلد ہی فوجی آمر حسین محمد ارشاد کے خلاف بی این پی کی مزاحمت کی علامت بن گئیں۔ آمریت سے سمجھوتہ نہ کرنے کے رویے نے انہیں “غیر مصالحتی قائد” کی شہرت دلائی، جو پوری سیاسی زندگی ان کے ساتھ رہی۔
1991 کے تاریخی انتخابات میں کامیابی کے بعد انہوں نے فوجی حکمرانی کے برسوں کے بعد پارلیمانی جمہوریت بحال کی۔ اپنے پہلے دورِ حکومت میں پارلیمانی نظام کی بحالی، آزاد و منصفانہ انتخابات کے لیے نگراں حکومت کا طریقۂ کار متعارف کرانے اور نسبتاً آزاد سیاسی ماحول کی سرپرستی جیسے اقدامات کیے۔
اگرچہ ان کی سیاسی شبیہ قدرے قدامت پسند تھی اور وہ جماعتِ اسلامی جیسے اسلام پسند اتحادیوں پر انحصار کرتی تھیں، تاہم انہوں نے خواتین کے حقوق کے فروغ کے لیے کئی اہم اصلاحات نافذ کیں۔ ان کے دور میں آٹھویں جماعت تک لڑکیوں کی تعلیم لازمی قرار دی گئی اور وظیفے دیے گئے، کم عمری کی شادی کے خلاف سخت موقف اپنایا گیا اور گھریلو تشدد کے مقدمات کے لیے خصوصی ٹریبونل قائم کیا گیا—جنہیں ان کے حامی ایک قدامت پسند معاشرے میں انقلابی اقدامات قرار دیتے ہیں۔
عوامی لیگ کی سربراہ اور بنگلہ دیش کے بانی صدر شیخ مجیب الرحمٰن کی صاحبزادی شیخ حسینہ کے ساتھ ان کی سیاسی رقابت نے ملک کی سیاست کو طویل عرصے تک متاثر کیے رکھا۔ ابتدا میں مشترکہ عوامی اسٹیج سے لے کر بعد ازاں شدید ذاتی اور سیاسی دشمنی تک، اس کشمکش نے سڑکوں پر احتجاج اور محاذ آرائی کی سیاست کو فروغ دیا۔
1996 میں انتخابی شفافیت کے خلاف بڑے احتجاجوں کے بعد خالدہ ضیا اقتدار سے باہر ہوئیں، تاہم 2001 میں اسلام پسند جماعتوں پر مشتمل اتحاد کے ساتھ دوبارہ وزیرِ اعظم بنیں۔ ان کے دوسرے دور کو بدعنوانی کے الزامات، بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی، سیاسی تشدد اور اقلیتوں پر حملوں نے متنازع بنایا۔ اسی دور میں ریپڈ ایکشن بٹالین (RAB) قائم کی گئی، جس پر بعد میں ماورائے عدالت ہلاکتوں کے الزامات لگے۔
2007 میں فوج کی حمایت یافتہ نگراں حکومت نے سیاسی بحران کے دوران خالدہ ضیا اور شیخ حسینہ دونوں کو گرفتار کیا۔ رہائی کے بعد انہوں نے 2008 کے انتخابات میں حصہ لیا، مگر بی این پی کو بھاری شکست ہوئی اور بعد کے برسوں میں عوامی لیگ کی مضبوط گرفت کے باعث وہ بتدریج سیاسی طور پر پس منظر میں چلی گئیں۔
2018 میں یتیم خانے کے فنڈز میں مبینہ خردبرد کے ایک مقدمے میں انہیں قید کی سزا سنائی گئی، جسے بی این پی نے ہمیشہ سیاسی انتقام قرار دیا۔ جیل میں ان کی صحت تیزی سے بگڑ گئی۔ 2020 میں شیخ حسینہ کی حکومت نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کی سزا معطل کر دی، تاہم انہیں گھر میں نظر بند رکھا گیا اور بیرونِ ملک علاج کی اجازت بارہا مسترد کی گئی۔
2024 کی عوامی تحریک کے بعد، جس کے نتیجے میں شیخ حسینہ اقتدار سے ہٹیں اور ملک چھوڑ کر چلی گئیں، سیاسی منظرنامہ یکسر بدل گیا۔ عبوری حکومت نے خالدہ ضیا کے خلاف مقدمات تیزی سے ختم کیے اور رواں سال جنوری میں سپریم کورٹ نے ان کی 10 سالہ سزا کالعدم قرار دے کر بری کر دیا۔ انہیں لندن جا کر علاج کی اجازت ملی، جہاں وہ اپنے بیٹے طارق رحمان سے ملیں، جو 17 برس کی جلاوطنی کے بعد 25 دسمبر کو بنگلہ دیش واپس آئے تھے۔
اپنے آخری عوامی بیانات میں خالدہ ضیا نے طویل سیاسی حریف پر تنقید سے گریز کیا—یہ رویہ ان برسوں کے برعکس تھا جن میں انہیں شدید ذاتی حملوں کا سامنا رہا۔ کمزور صحت اور وہیل چیئر تک محدود ہونے کے باوجود، انہوں نے نجی طور پر ایک اور انتخاب لڑنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
خالدہ ضیا کی سیاسی وراثت پیچیدہ مگر غیر معمولی طور پر اہم ہے۔ ایک قوم پرست علامت کے طور پر انہوں نے فوجی آمریت کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا، جمہوری مکالمے کے لیے جگہ وسیع کی اور قدامت پسند سیاسی پلیٹ فارم سے خواتین کے حقوق کو آگے بڑھایا۔ وہ ایسے وقت میں دنیا سے رخصت ہوئیں جب بنگلہ دیش ایک نئے اور فیصلہ کن سیاسی مرحلے کے دہانے پر کھڑا ہے۔ بظاہر سخت اور پراسرار سمجھی جانے والی خالدہ ضیا اپنے پیچھے استقامت، مضبوط یقین اور جمہوریت کی جدوجہد میں ایک دیرپا نقوش چھوڑ گئی ہیں۔
