بدر الحسن القاسمی، نیشنل اردو لائبریری، ریونڈھا، جالے، دربھنگہ، انڈیا

٣ جون 2025ء کو بہار کے مردم خیز ضلع دربھنگہ میں ایک ایسا چراغ گل ہوگیا جس نے اپنی پوری زندگی علم، دعوت تدریس، اصلاحِ معاشرہ اور دینِ متین کی خدمت میں وقف کردی تھی۔ مولانا سید ابو اختر قاسمیؒ اب ہمارے درمیان نہیں رہے، لیکن ان کی علمی، تدریسی اور سماجی خدمات کی روشنی دیر تک اہلِ علم و نظر کو راستہ دکھاتی رہے گی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

ابتدائی ملاقات اور جامعہ رحمانی کا پس منظر

میری مدرسہ کی زندگی کا باقاعدہ آغاز جامعہ رحمانی، خانقاہ مونگیر سے ہوا۔ اُس وقت میری عمر گیارہ یا بارہ سال تھی۔ ابتدائی دنوں میں جو پہلی پرشکوہ اور باوقار شخصیت میری نظروں کے سامنے آئی، وہ امیر شریعت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانیؒ کی تھی۔ پہلی ہی ملاقات میں ان کی نگاہ کی ہیبت اور حکم کی سختی کا اندازہ یوں ہوا کہ فرمایا گیا: “کالر والی قمیص اتار دو اور درزی کے پاس جا کر سفید کپڑے سے مولویانہ کرتا سلوا لو۔” وہ مدرسہ کی نئی شاندار تین منزلہ عمارت، خانقاہ سے متصل دلکش مسجد، اور مسجد کے حوض پر بنی حسین لائبریری، ایک کم عمر طالب علم کے لیے بہت کشش رکھتی تھی۔

لائبریری اور علمی ماحول

جامعہ رحمانی کی لائبریری میں اُس زمانے میں روزانہ کے اخبارات، ہفت روزے اور ماہنامے باقاعدگی سے دستیاب تھے۔ ان کے مطالعے کا شعور اُس وقت نہیں تھا، لیکن کتابوں اور رسائل کا نظارہ دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتا تھا۔ ہمارے گاؤں سے تعلق رکھنے والے ایک استاذ، مولانا فضل الرحمن قاسمی صاحب، اس لائبریری کے نگراں بھی تھے، اس لیے ان کی نگرانی میں علمی ذوق کی آبیاری ہونے لگی۔

اساتذہ کی عظیم جماعت

جامعہ رحمانی میں عربی کے دوسرے سال سے جو تدریسی سفر شروع ہوا، اس میں جن اساتذہ سے استفادہ حاصل ہوا وہ نہایت ہی ممتاز، فاضل، باوقار اور اخلاق و کردار میں بے مثال شخصیات تھیں۔ ان میں:

مولانا اکرام علی صاحب (سابق شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ ڈابھیل)،

مولانا سید شمس الحق صاحب (شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر)،

مولانا مفتی محمد یحییٰ صاحب (نامور مفتی امارت شرعیہ)،

مولانا حسیب الرحمن صاحب (سابق شیخ الحدیث دارالعلوم حیدرآباد)،

مولانا فضل الرحمن قاسمی صاحب (نائب شیخ الحدیث دارالعلوم سبیل السلام، حیدرآباد)،

اور مولانا سید ابو اختر قاسمی صاحبؒ شامل تھے۔

یہ سبھی اساتذہ مولانا منت اللہ رحمانیؒ کے معتمد، معتقد اور ان کی مردم شناسی کے شاہکار تھے۔ وہ نہ صرف تدریسی فرائض انجام دیتے بلکہ مولانا رحمانیؒ کے ساتھ ناشتہ کے وقت علمی اور انتظامی مشورے میں بھی شریک ہوتے۔

مولانا سید ابو اختر قاسمیؒ: ایک منفرد معلم

مولانا سید ابو اختر قاسمیؒ ان تمام باکمال اساتذہ میں ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔ ان کی تدریسی زبان و بیان میں ایک الگ انفرادیت تھی۔ ان کا اندازِ تدریس، الفاظ کا چناؤ، آواز کا اتار چڑھاؤ، منفرد لہجے ، سب کچھ جداگانہ ہوتا۔ وہ اپنے مخصوص انداز سے طلبہ کے ذہنوں میں پیچیدہ اسباق کو بھی آسانی سے بٹھا دیتے تھے۔ مزاج میں نرمی کے ساتھ سنجیدگی، اور تدریس میں وضاحت کے ساتھ روانی، ان کے پڑھانے کا طرۂ امتیاز تھا۔

ادارے کی تبدیلی اور نئی منزل

جامعہ رحمانی میں کچھ انتظامی تبدیلیوں کی وجہ سے ماحول میں بے چینی پیدا ہوئی۔ نتیجتاً کئی اہم اساتذہ ادارے سے علاحدہ ہوگئے۔ ان میں مولانا سید ابو اختر صاحب بھی شامل تھے۔ وہ حیدرآباد، مئو، ڈابھیل جیسے مشہور علمی مراکز کی بجائے دربھنگہ آکر آباد ہوئے، انہوں نے دربھنگہ کو ہی اپنا علمی، تدریسی اور سماجی مرکز بنایا۔

دربھنگہ میں علمی و سماجی خدمات

مولانا ابو اختر قاسمیؒ نے دربھنگہ میں دینی مدارس ، شفیع مسلم ہائی اسکول کے علاوہ کالج کی سطح پر بھی تدریسی خدمات انجام دیں۔ ان کی خطابت، علمیت، اور سماجی مسائل پر گہری نظر کی وجہ سے وہ ہر طبقہ میں مقبول ہوتے گئے۔ انہوں نے اصلاحِ معاشرہ کی ایک تحریک شروع کی، جس نے متعدد خاندانوں، نوجوانوں، اور عوامی زندگی میں بہتری پیدا کی۔ ان کا حلقہ اثر علماء، طلبہ، سیاسی و سماجی افراد، اور عام مسلمانوں تک وسیع ہوگیا۔

سادگی اور مستقل مزاجی کی مثال

مولانا سید ابو اختر قاسمیؒ نے جس ماحول میں کام کیا، وہ کئی حوالوں سے سازگار نہ تھا۔ لیکن ان کی مستقل مزاجی، خلوصِ نیت، اور مقصدِ حیات کی سچائی نے ان کے لیے خود بخود راستے کھول دیے۔ انہوں نے نہ صرف نامساعد حالات میں کام کیا بلکہ اپنے لیے موزوں فضا بھی پیدا کی۔ یہ بات ان کی شخصیت کی بلند ہمتی اور اعتماد کی گواہ ہے۔

زندگی کا آخری باب اور تعزیتیں

ان کی طویل عمر کا بیشتر حصہ درس و تدریس اور اصلاحِ معاشرہ کے کاموں میں گزرا۔ ہزاروں شاگرد، عقیدت مند، اور محبانِ دین ان کے سانحہ ارتحال پر اشکبار ہیں۔ کچھ عرصہ قبل معروف صحافی عارف اقبال نے مولانا ابو اختر صاحب کی علمی خدمات پر مشتمل ایک خصوصی مجلہ شائع کیا تھا، جس میں ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی تھی۔
مولانا کی وفات پر بہار، اترپردیش، جھارکھنڈ اور دیگر ریاستوں کے علماء، طلبہ، اور دینی اداروں نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کے بارے میں تعزیتی پیغامات کا ایک طویل سلسلہ دیکھا گیا، جس سے ان کی مقبولیت اور علمی مقام کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔

دُعا اور عقیدت کا اظہار

ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ مولانا سید ابو اختر قاسمیؒ کی دینی، ملی، علمی اور اصلاحی خدمات کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے، ان کے درجات بلند کرے، اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ساتھ ہی ان کے پسماندگان، تلامذہ، وابستگان اور عقیدت مندوں کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین یا رب العالمین۔