اے ایم این
امریکہ کی کم عمر لڑکیوں میں اسکن کیئر مصنوعات کے استعمال کا خطرناک رجحان عام ہوتا جا رہا ہے۔ ایسی مصنوعات ان کی حساس جلد کے لیے مضر ثابت ہوتی ہیں، جن کے باعث وہ جلد کے متعدد مسائل کا شکار ہو رہی ہیں۔امریکی ریاست ایریزونا کے شہر اسکاٹس ڈیل میں ماہر امراض جلد ڈاکٹر بروک جیفی نے سوشل میڈیا پر جاری کردہ اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ بڑھتی ہوئی عمر کے اثرات کو کم کرنے والی مصنوعات ایسی بچیوں کی جلدکو بڑھاپے کا شکار بنا دیتی ہیں، یہ ان کی جلد کی حفاطتی سطح کو متاثر کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں جلد پر مستقل داغ دھبے پڑ جاتے ہیں۔تاہم بہت سے والدین اور ماہرین نفسیات اس رجحان کے باعث نابالغ لڑکیوں کی جسمانی صحت سے زیادہ ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کے حوالے سے بھی فکر مند ہیں۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ چہرے کی خوبصورتی پر بہت زیادہ توجہ انسان کی خود اعتمادی کو متاثر کر سکتی ہے جو اینگزائٹی، ڈپریشن اور غذائی عادات سے متعلق امراض کا باعث بنتی ہے۔ڈیجیٹل میڈیا کے بچوں پر اثرات کا مطالعہ کرنے والے ایک ادارے ”چلڈرن اینڈ اسکرین“ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کرس پیری کے مطابق کم عمر لڑکیوں کا میک اپ کرنے اور خوبصورت نظر آنے میں دلچسپی لینا کوئی نئی بات نہیں، تاہم ڈیجیٹل میڈیا کے اثرات کے سبب اب یہ دلچسپی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔کرس پیری کہتی ہیں، ”لڑکیوں کو دیکھنے کے لیے خوبصورتی کی ایسی مثالی تصاویر مل رہی ہیں، جو ان کے لیے حسن و خوبصورتی کا ایک ایسا معیار قائم کر دیتی ہیں، جسے حاصل کرنا بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔“
صنعتی منافع کی دوڑ
چودہ سالہ میا ہال آٹھویں جماعت میں تھیں، جب اسکول اور سوشل میڈیا پر ان کی ہم عمر لڑکیوں کے مابین جلد کی دیکھ بھال بات چیت کا اہم موضوع بن گیا تھا۔ میا نے بھی کیٹی فینگ اور جیانا کرسٹین نامی مشہور انفلوئنسرز کو ٹک ٹاک پر فالو کرنا شروع کر دیا تھا۔ میا کہتی ہیں، ”سب لوگ یہی کر رہے تھے۔ مجھے بھی لگا کہ یہی واحد طریقہ ہے، جس کے ذریعے میں بھی ان میں شامل ہو سکتی ہوں۔“میا نے اپنے دوستوں کے ساتھ میک اپ مصنوعات کے انتہائی مشہور سٹور صفورا سے خریداری کے لیے ہر ہفتے 20 ڈالر بچانا شروع کر دیے۔ ان کی روزمرہ معمولات میں چہرہ دھونے کے بعد فیشیل مِسٹ کا استعمال، ہائیڈریٹنگ سیریم لگانا، مساموں کو بند کرنے والا ٹونر، موئسچرائزر، اور سن اسکرین لگانا شامل تھے۔ ان میں سے زیادہ تر مصنوعات بہت مہنگے برانڈز کی ہوتی تھیں۔رٹگرز یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ماہر نفسیات شارلٹ مارکی کے مطابق لڑکیوں کو تو اب یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ وہ تو کبھی نہ ختم ہونے والا ایک پراجیکٹ ہیں اور بنیادی طور پر وہ جیسی ہیں، ویسے اچھی نہیں لگتیں۔
کاسمیٹکس کی صنعت اس رجحان سے بہت منافع کما رہی ہے۔ نیلسن آئی کیو کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس میڈیکل اسٹوروں سے جلد کی دیکھ بھال کی مصنوعات خریدنے والے پچاس فیصد خریدار 14 سال سے کم عمر کے تھے۔ مارکیٹ ریسرچ فرم سرکانا کے مطابق 2024 کی پہلی ششماہی میں صفورا جیسے بڑے اسٹوروں پر لگنے والی بیوٹی سیلز کے دوران شاپنگ میں ایک تہائی حصہ ایسے گھرانوں نے ڈالا، جن کے ارکان میں نو عمر لڑکے لڑکیاں بھی شامل تھے۔
کاسمیٹکس انڈسٹری نے تسلیم کیا ہے کہ کچھ مصنوعات بچوں کے لیے موزوں نہیں ہوتیں لیکن عملی طور پر بچوں کو ان کی خریداری سے روکنے کے لیے کافی اقدامات نہیں کیے جاتے۔ماہرین کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ بچوں کو عام طور پر صرف جلد کو صاف کرنے والے کلینزر، جلد کی نمی کو قائم رکھنے والے موئسچرائزرز اور جلد کو سورج کی مضر شعاعوں سے محفوط رکھنے والی سن اسکرین کی ضرورت ہوتی ہے۔چند ماہ قبل امریکی ریاست کیلیفورنیا میں 13 سال سے کم عمر کے بچوں کو اینٹی ایجنگ میک اپ مصنوعات کی فروخت پر پابندی لگانے کے لیے پیش کیا جانے والا بل نامنظور ہو گیا تھا۔ اس کے مقابلے میں یورپی یونین میں گزشتہ برس منظور کیے گئے ایک قانون کے تحت ادویات کی دکانوں سے براہ راست خریدی جانے والی میک اپ مصنوعات میں ریٹینول نامی کیمیائی مادے کی مقدار کو پہلے سے بہت محدود کر دیا گیا ہے۔
اسکن کیئر مصنوعات کے نقصانات
امریکہ بھر میں بہت سی مائیں اپنی بیٹیوں کے ہمراہ جلد کی دیکھ بھال کی مصنوعات لے کر ڈاکٹروں کے پاس جاتی ہیں اور پوچھتی ہیں کہ کیا وہ مصنوعات محفوظ ہیں۔نیو یارک شہر کے علاقے مین ہیٹن سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر ڈینڈی اینجل مین کہتی ہیں، ”اکثر مائیں وہی باتیں کہتی ہیں، جو میں کہتی ہوں۔ لیکن وہ چاہتی ہیں کہ ان کی بیٹیوں کو وہی معلومات گھر سے باہر کسی ماہر سے براہ راست ملیں۔ کیونکہ وہ یہ سوچتی ہیں کہ بچیاں اپنی ماؤں کے مقابلے میں یہی باتیں کسی ماہر معالج سے زیادہ توجہ اور سنجیدگی سے سنیں گی۔“
تاہم میا کی والدہ سینڈرا گورڈن نے ایک مختلف طریقہ اختیار کیا۔ انہوں نے جب اپنی بیٹی کے چہرے پر سیاہ دھبے دیکھے، تو پریشان ہوگئیں۔ اس کے بعد انہوں نے میا کی تمام اسکن کیئر مصنوعات کوڑے میں پھینک دیں۔امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سیکرامنٹو کی رہنے والی اسکارلٹ نے ابتدائی طور پر محسوس ہی نہ کیا کہ وہ جو مصنوعات استعمال کر رہی تھیں، وہ ان کی جلد کو نقصان پہنچا رہی تھیں۔ تاہم چند دنوں کے اندر اندر انہیں اپنی جلد پر خارش اور جلن محسوس ہونے لگی تھی۔اسکارلٹ کی والدہ اینا گوڈارڈ بتاتی ہیں، ”ایک مرتبہ تو رات گئے اسکارلٹ روتی ہوئی میرے کمرے میں آئی۔ تب اس کے گالوں پر شدید جلن ہو رہی تھی۔“گوڈارڈ کہتی ہیں، ”تب مجھے معلوم نہ تھا کہ بچوں کے لیے بنائی گئی جلدی مصنوعات میں بھی اتنے نقصان دہ اجزاء ہوتے ہیں۔“ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان مصنوعات پر کوئی واضح تنبیہ ہونا چاہیے جو صارفین کو ان کے ممکنہ مضر اثرات سے بھی اچھی طرح آگاہ کر سکے۔ (اے ایم این)