‘ایچ ڈی آئی’ اعدادوشمار کا ایسا مجموعہ ہے جس میں فی کس آمدنی، حصول تعلیم اور اوسط عمر کو مدنظر رکھتے ہوئے ترقی کو جانچا جاتا ہے۔

عندلیب اختر

گزشتہ سالوں میں انسانی ترقی سے متعلق غیرمعمولی طور پر بہتر اشاریوں کے باوجود باوسائل اور بے وسیلہ طبقات کے مابین فرق بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کے کووڈ۔19 وبا کے باعث 2020 اور 2021 میں متواتر تنزل کے بعد گزشتہ برس انسانی ترقی کے اشاریے (ایچ ڈی آئی) نے نئی بلندیوں کو چھو اہے۔ اس دوران امیر ممالک میں بے مثال طور سے بڑے پیمانے پر ترقی ہوئی جبکہ دنیا کے غریب ترین ممالک میں بحرانوں کی شدت وبا سے پہلے کے مقابلے میں کہیں بڑھ گئی۔ترقی کی ناہموار ترقی غریب ترین لوگوں کو پیچھے چھوڑ رہی ہے، عدم مساوات کو بڑھا رہی ہے، اور عالمی سطح پر سیاسی پولرائزیشن کو ہوا دے رہی ہے۔
ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ (HDR) 2023/24 ، جس کا عنوان بریکنگ دی گرڈ لاک: پولرائز ورلڈ میں تعاون کا ازسر نو تصور کرنا، ایک پریشان کن رجحان کو ظاہر کرتا ہے: گلوبل ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (ایچ ڈی آئی) میں ریباؤنڈ – ایک خلاصہ اقدام جو کسی ملک کی مجموعی قومی آمدنی کی عکاسی کرتا ہے۔ GNI) فی کس، تعلیم، اور متوقع عمر – جزوی، نامکمل، اور غیر مساوی رہی ہے۔
بڑھتا ہوا تفاوت
‘یو این ڈی پی’ کے منتظم ایکم سٹینر کے مطابق دو دہائیوں کے عرصہ میں انسانی ترقی کے حوالے سے امیر اور غریب ممالک کے مابین کم ہوتا تفاوت اب دوبارہ بڑھنے لگا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ عالمگیر معاشرے باہم مربوط ہونے کے باوجود یہ فرق ختم ہونے کو نہیں آ رہا۔ دنیا کو باہم انحصاری اور اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مشترکہ مسائل پر قابو پانا اور لوگوں کی امنگوں کو پورا کرنا ہو گا۔موسمیاتی تبدیلی، ڈیجیٹلائزیشن یا غربت و عدم مساوات جیسے مسائل پر مشترکہ اقدامات اٹھانے میں ناکامی سے ناصرف انسانی ترقی متاثر ہو رہی ہے بلکہ تقسیم بڑھ رہی ہے اور دنیا بھر میں عوام اور اداروں پر اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے۔


جمہوری تضاد
‘ایچ ڈی آر’ میں جمہوریت کے حوالے سے ایک نئے تضاد کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ عام طور پر لوگ جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ ایسے رہنماؤں کے بھی حامی ہیں جن سے جمہوری اصولوں کی پامالی کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔لوگوں میں بے بسی کے احساس اور حکومتی فیصلوں پر اثرانداز ہونے کے اختیار کی کمی کے باعث اس تضاد نے سیاسی تقسیم اور خودغرضی پر مبنی پالیسیوں کو تقویت دی ہے۔ گزشتہ برس کرہ ارض پر ریکارڈ توڑ حدت کے تناظر میں یہ خاص طور پر تشویشناک بات ہے۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے موسمیاتی بحران پر قابو پانے کے لیے مشرکہ اقدامات کی ضرورت واضح کر دی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے میدان میں تیزی سے ترقی پاتی ٹیکنالوجی کی تیاری اور استعمال کو باضابطہ بنانا بھی وقت کا تقاضا اور مستقبل کے بہت سے مسائل کا حل ہے۔
بہبود عامہ کو خطرہ
‘یو این ڈی پی’ کے سربراہ کا کہنا ہیکہ بڑھتی ہوئی تقسیم سے عبارت دنیا میں ایک دوسرے کے کام آنے میں بے اعتنائی تمام انسانوں کی بہبود اور ان کے تحفظ کو سنگین خطرات سے دوچار کر رہی ہے۔ ممالک محض اپنے مفادات کو ہی مدنظر رکھ کر وباؤں کی روک تھام، موسمیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹل ضابطہ کاری جیسے پیچیدہ اور باہم مربوط مسائل سے نہیں نمٹ سکتے۔ باہم مربوط مسائل مربوط حل کا تقاضا کرتے ہیں۔جمود کو توڑنے اور مشترکہ مستقبل کی خاطر نیا عزم کرنے کے لیے توانائی کے قابل تجدید ذرائع کی جانب منتقلی اور مصنوعی ذہانت کے مفید استعمال کی صورت میں مواقع پیدا کرنے والے ایجنڈے سے کام لینا ہو گا۔
انسانی ترقی: ممالک کی درجہ بندی
24۔2023 میں انسانی ترقی سے متعلق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سوئزرلینڈ، ناروے اور آئس لینڈ قومی سطح پر انسانی ترقی کے اشاریوں میں سب سے آگے ہیں جبکہ وسطی جمہوریہ افریقہ (سی اے آر)، جنوبی سوڈان اور صومالیہ آخری پوزیشن پر آتے ہیں۔شمالی کوریا اور مناکو اس فہرست میں شامل ممالک اور معیشتوں کا حصہ نہیں ہیں
۔۔۔
رپورٹ کے مزید اہم انکشافات ا
2023 میں، تمام 38 ممالک جو اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم (OECD) کے رکن ہیں، 2019 میں ان کی سطح کے مقابلے میں اعلیٰ انسانی ترقی انڈیکس (HDI) سکور حاصل کر چکے ہیں۔
2020 اور/یا 2021 میں اپنے ایچ ڈی آئی میں کمی کا سامنا کرنے والے 35 کم ترقی یافتہ ممالک (ایل ڈی سیز) میں سے، نصف سے زیادہ (18 ممالک) ابھی تک 2019 کی اپنی انسانی ترقی کی سطح پر بحال نہیں ہوئے ہیں۔
تمام ترقی پذیر خطوں نے 2019 سے پہلے کے رجحان کی بنیاد پر اپنی متوقع ایچ ڈی آئی کی سطح کو پورا نہیں کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ کم ایچ ڈی آئی کی رفتار پر منتقل ہو گئے ہیں، جو مستقبل میں انسانی ترقی کی ترقی میں ممکنہ مستقل دھچکے کی نشاندہی کرتا ہے۔
انسانی ترقی کے نقصانات کا اثر افغانستان اور یوکرین میں بہت زیادہ ہے۔ افغانستان کی ایچ ڈی آئی کو دس سال کے بعد حیرت انگیز طور پر پیچھے ہٹا دیا گیا ہے، جبکہ یوکرین کا ایچ ڈی آئی 2004 کے بعد سب سے کم سطح پر آ گیا ہے۔رپورٹ میں تحقیق کا حوالہ دیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن ممالک میں پاپولسٹ حکومتیں ہیں ان میں جی ڈی پی کی شرح نمو کم ہے۔ ایک پاپولسٹ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے پندرہ سال بعد، فی کس جی ڈی پی 10 فیصد کم پائی جاتی ہے جو کہ ایک غیر پاپولسٹ حکومتی منظر نامے میں ہو سکتی ہے۔AMN