جرمنی میں انتہائی بیمار اور قریب المرگ افراد کے لیے خصوصی سینٹرز میں نہ صرف ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے بلکہ انہیں گھر جیسا ماحول فراہم کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔

 

حالیہ کچھ عرصے کے دوران جرمنی میں طبی لحاظ سے انتہائی بیمار اور ناقابل علاج افراد کے لیے بنائے گئے خصوصی طبی مراکز میں سہولیات کو زیادہ بہتر بنا دیا گیا ہے۔ جرمنی میں ایسے سینٹرز کو لاعلاج افراد کے لیے ایک ‘جنت‘ قرار دیا جانے لگا ہے، جہاں طبی عملہ ایسے مریضوں کی ہر ضرورت پوری کرنے کی خاطر دن رات ایک کیے ہوئے ہوتا ہے۔

اب ایسے سینٹرز میں مذہب، رنگ اور نسل سے ماورا ہو کر لوگوں کی مدد کی جا رہی ہے۔ جرمنی میں اکیس ملین افراد ایسے ہیں، جو تارکین وطن کے پس منظر کے حامل ہیں۔ اسی لیے ان طبی مراکز میں ثقافت اور زبان کے لحاظ سے بھی خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں۔

حسام خضر گزشتہ سات برس سے برلن کے ‘لازارس ہوسپس‘ میں کام کر رہے ہیں۔ انہیں اب بھی یاد ہے، جب سن 2019 میں ایک عراقی نے اس سے مدد کی اپیل کی تھی۔ اس کا سات سالہ بچہ کینسر کا شکار تھا۔ وہ اپنے بچے کے علاج کی غرض سے بحیرہ روم عبور کر کے جرمنی پہنچا تھا۔

جب میتسُورو نینُوما کو معلوم ہوا کہ وہ پھیپھڑوں کے کینسر کی وجہ سے بس موت کے منہ میں جانے والے ہیں، تو انہوں نے ہسپتال کی بجائے گھر میں مرنا پسند کیا۔ اس طرح انہیں اپنے پوتے کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملا اور رِن نامی اپنے کتے کے ساتھ بھی۔

حسام نے بتایا، ”جب وہ مجھے ملا تو اس شخص نے اپنے بیٹے کو اپنی کمر پر اٹھایا ہوا تھا۔‘‘ اسے افسوس ہے کہ یہ بچہ سرطان کے آگے زندگی ہار گیا لیکن اس دوران حسام اور اس کے ساتھیوں نے دیگر انتہائی بیمار افراد کے ساتھ ساتھ اس بچے کی بھی ہر ممکن طبی مدد کی تھی۔

فلسطینی والدین کے گھر پیدا ہونے والے اڑتالیس سالہ حسام نے اپنی عمر کے ابتدائی دن لبنان میں گزارے۔ وہ بیس برس کی عمر میں جرمنی آئے تھے۔ اس لیے وہ عربی زبان پر عبور رکھتے ہیں اور جرمنی میں ایسے لوگوں کے ساتھ آسانی سے گھل مل جاتے ہیں، جن کا تعلق عرب ممالک سے ہوتا ہے۔ حسام نے بتایا کہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس طبی مرکز میں لوگوں کی ہر ممکن مدد کی جائے۔

وفاقی جرمن حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال تیس ہزار سے زائد افراد اپنے آخری ایام ان خصوصی میڈیکل کیئر سینٹرز میں گزارتے ہیں۔ برلن کا ‘لازارس ہوسپس‘ ایک ایسا طبی مرکز ہے، جہاں کام کرنے والے ملازمین اور رضا کار ثقافتی اور لسانی حدود سے ہٹ کر تمام افراد کی خدمت کرتے ہیں۔

برلن کے اس خصوصی سینٹر میں ہر سال کم ازکم ایک سو پچاس افراد کو خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔ تاہم دن بدن جرمنی میں ان سینٹرز پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔

جرمنی میں ان سینٹرز نے وفاقی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس شعبے میں مزید فنڈنگ کریں اور قریب المرگ افراد کے آخری دنوں کو آرام دہ بنانے کے لیے مزید سہولیات کا انتظام کریں۔ ان خصوصی مراکز کا کہنا ہے کہ مذہب، رنگ اور نسل کچھ بھی ہو لیکن ‘ہر مریض کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔‘‘