ولادت : یکم جولائی 1905ء ۔ وفات : 18 جنوری 1973ئ

مجاہدآزادی عبدالقیوم انصاریؒ کے یوم ولادت یکم جولائی کے موقع پر خاص مضمون

محمد عارف انصاری
مسلمانان ہند نے جنگ آزادی میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ ہراول دستے کا فریضہ انجام دیا۔ لاکھوں کی تعداد میں علمائ،سماجی و سیاسی رہنماﺅں اور عام لوگوں کو جام شہادت نوش کرنی پڑی، مختلف جیلوں میں قید و بندکی سعوبتیں حتی کہ کالاپانی کی سزا جھیلنی پڑی اور زمین جائداد کی ضبطی و نیلامی اورتباہی و بربادی کے مراحل سے گزرنا پڑا۔ان عدیم المثال قربانیوں کے صلے میں آزادی حاصل ہوئی۔ان پرخلوص رہنماﺅں میں ایک اہم رہنماءکا نام نامی اسم گرامی عبدالقیوم انصاری رحمة اللہ علیہ ہے۔وہ اخیر تک مسلم لیگ کے دوقومی نظریے اور تقسیم ہند کی شدیدمخالفت کرتے رہے۔ ایک قوم پرور رہنماءکے طور پر انگریزی استعمار سے لڑنے کے ساتھ ہی حکیمانہ طور سے سماجی وسیاسی بصیرت کے ساتھ صدیوں سے زبوں حالی کی شکار مومن بنکر و دیگرپس کردہ برادریوں کو نئے انقلاب سے نہ صرف رو شناس بلکہ ہمکنار کرایا۔وہ زندگی کی آخری سانس تک فعال و متحرک رہے۔یوں وہ نہ صرف مومن ودیگر پس کردہ برادریوں بلکہ قوم و ملت کے لئے فخروناز کا مرکز بن گئے۔

انصاری صاحب ؒکے جدِّاعلیٰ حضرت شیخ شاہ عالم شہنشاہ ہمایوں کی حکومت میں چکلہ دار کے اعلیٰ منصب پر فائز تھے۔بادشاہ ان کی شجاعت و دیانت اور دینداری کا معترف تھا لیکن بوجہ ضعیفی وہ شاہی خدمت سے سبکدوش ہوکر اپنے وطن اکبرپور اور بعدہ‘ اپنی آباد کردہ بستی نولی (ضلع غازی پور، یوپی) میں اقامت گزیں ہوئے۔آں وقت تا انقلاب 1857ءاس خاندان کا پیشہ کاشتکاری و تجارت رہا۔ قرب و جوار میں یہ گھرانہ معزز وبااثررہا اور1876ءمیں سون ندی کے کنارے واقع ڈہری آن سون ، سہسرام ،ضلع شاہ آباد(اب روہتاس) ،بہار آکر آباد ہوگیا۔عبدالقیوم انصاریؒ کے والد مولوی عبدالحق ایک خوشحال تاجر اور بااثر شخصیت کے حامل تھے۔ ان کے نانا حضرت مولانا عبداللہ غازیپوری، جید عالمِ دین اور خدارسیدہ بزرگ تھے۔ان کی والدہ محترمہ صفیہ خاتون حافظہ¿ قرآن اور عالمہ و فاضلہ تھیں۔ ان کی ولادت ڈہری آن سون میں یکم جولائی 1905ءکو ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنی والدہ اور نانا کے زیر سایہ حاصل کی۔ وہ اتنے ذہین تھے کہ آٹھ سال کی عمر میں ا±ردو، عربی، فارسی اور دینیات میںاچھی خاصی دسترس حاصل کرلی۔

صوبہ بہار کی انقلاب آفریں سرزمین کے جن ہزاروں فرزندان اسلام نے جنگ آزادی میں لازوال قربانیاں پیش کی ہیں ان میں عبدالقیوم انصاریؒ کا خانوادہ بھی شامل ہے۔ان کے گھرانے کا تعلق جدو جہد آزادی کے لئے مشہور علمائے صادق پور کی انقلابی تحریک سے بھی تھا۔اس لئے بچپن سے ہی تحریک آزادی سے ان کا متاثر ہونا حیرت کی بات نہیں۔محض بارہ تیرہ سال کی عمر سے ہی وطن کی آزادی کا جذبہ ان کے دل میں انگڑائی لینے لگا۔ ان کی غیرمعمولی شخصیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب وہ صرف چودہ برس کے تھے اورسہسرام ہائی اسکول میں زیر تعلیم تھے کہ 1919ءمیں مولانا محمد علی جوہرخلافت تحریک کے سلسلے میں سہسرام تشریف لائے تو ان سے ملاقات کی اور جذبہ¿ حریت کا اظہار کیا۔مولانا موصوف کوان کی گفتگوئ وچہرے کی نورانیت نے متاثر کیا اور بخوشی انہیں خلافت تحریک کا رکن بنا دیا۔ 1920ءمیں پندرہ سالہ عبدالقیوم انصاری ڈہری آن سون خلافت کمیٹی کے جنرل سیکریٹری بن گئے اور اسی سال کانگریس کے خصوصی اجلاس‘کلکتہ میں صوبہ بہار سے ڈیلی گیٹ کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ اسی اجلاس میں وہ مہاتما گاندھی سے ملے اوران کی تعلیمات اور شخصیت سے ایسے متاثر ہوئے کہ تاحیات ان کے معتقدرہے۔ ان کی سیاسی سرگرمیوں کا اثر ان کے والد کے کاروبار پر بھی پڑا۔ انگریزوں اور ان کے ہمنوا کمپنیوں کے ساتھ جاری ان کے تجارتی تعلقات منقطع ہوگئے اوربھاری خسارے سے دوچار ہوناپڑا۔ مگر ان کے والد نے انہیں روکا نہیں بلکہ حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ گھر پر پولیس کے چھاپے پڑے، تلاشیاں ہوئیں لیکن ان کے چہرے پر کوئی شکن نہیںآئی۔ فروری 1922ءمیں پولیس نے عبدالقیوم انصاری کو ان کی باغیانہ سرگرمیوں کے سبب گرفتار کرلیا لیکن سہسرام ضلع جیل کی بدترین سختیاں بھی انہیں دل شکستہ نہیں کرسکیں۔ اسی جدوجہد کے دوران کچھ برسوں تک انہوںں نے علی گڑھ اور کلکتہ میں تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کی۔ علی گڑھ کا انگریز زدہ ماحول راس نہیں آیا تو کلکتہ جاکر تعلیم جاری رکھنے کی کوشش کی لیکن تعلیم سے زیادہ سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ وطن کی عزت اوروقار کے لیے کچھ بھی کرگزرنے کو تیار رہتے۔ملک کے حالات یہ تھے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے ناپاک قدم جمانے کے ساتھ ہی دنیا بھر میں مشہورہندوستانی کپڑوں کی صنعت (ہینڈلوم) جس کا بڑا حصہ مسلم بنکروں کے ہاتھوں میں تھا، تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ 1857ءکے بعد تو بطورخاص اس طبقے کو مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔ ہندوستانی کپڑے باہر بھیجنے پر پابندی لگادی گئی۔یہاں کے بازار مانچسٹر کی ملوں کے تیار شدہ کپڑوں سے بھر دیئے گئے۔ ان زیادتیوںکی شکار سب سے زیادہ مومن بنکر برادری ہوئی جس کے سبب یہ برادری انگریز وںکی مخالفت میں پیش پیش رہی۔ انہیں حالات کے بطن سے1913ءمیں کلکتہ میں مومن تحریک کا ظہور ہوا جس کے بانیوں میں زیادہ تر بہارکے ہی لوگ تھے۔ صدیوں سے دبی کچلی مومن برادری میں ایک نئے انقلاب کا آغاز تھا۔پہلے انجمن اصلاح بالفلاح پھر جمعیةالمومنین کے نام سے یہ تحریک آگے بڑھتی رہی جو 1928ءمیںآل انڈیا مومن کانفرنس میں تبدیل ہوگئی۔ عبدالقیوم انصاری اپنی سیاسی زندگی کے آغاز سے ہی کانگریس، تحریک خلافت اور مومن تحریک سے وابستہ تھے لیکن جب اپنے وسیع تر نصب العین کے ساتھ مومن تحریک کے قائد بنے تو یہ ایک مضبوط سیاسی طاقت بن کر ملک کے سیاسی منظرنامے پر ا±بھرے۔ ان کے پیش نظرگاندھی جی کی شخصیت تھی جودلتوں، ہریجنوں اور کمزور طبقات کے حالات بدلنے کے لیے کوشاں تھے جنہیں اعلیٰ ذات کے ہندو سماج نے ذلت اور پسماندگی کا شکار بنارکھا تھا۔یہی وجہ ہے کہ انصاری صاحب نے تحریکِ آزادی کی تمام تر سرگرمیوں کے ساتھ ہی مسلمانوں کے پسماندہ طبقات کو سماجی انصاف دلانے کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔ان کا سب سے بڑا کارنامہ مومن تحریک کو تحریک آزادی میں عملی طور پر شامل کر کے کانگریس کی سب سے بڑی حلیف جماعت بنا دینا ہے جس کے سبب ملک کی سیاست ہی بدل گئی۔ واقعہ ہے کہ1938 ءمیں وہ پٹنہ کی ایک اسمبلی سیٹ پر انتخاب لڑنا چاہتے تھے۔ امیداوار طے کرنے کے لیے مسلم لیگ کے رہنماءباہر سے بھی آئے تھے درخواستیں لی جارہی تھیں۔مسلم لیگ کے ایک صوبائی رہنماءکی ایماءپرانصاری صاحب نے بھی اس سیٹ کے لئے درخواست پیش کی اورجیسے ہی باہر نکلے کہ اند ر سے قہقہوں کے ساتھ آواز سنائی پڑی ”اب جولاہے بھی ایم ایل اے بننے کا خواب دیکھنے لگے“۔ یہ سننا تھا کہ وہ پلٹ کرتیزی کے ساتھ اندر داخل ہوئے اوراپنی درخواست واپس لے کر اسی جگہ پرزہ پرزہ کردی۔اس وقت انہوں نے شاید اپنی ایسی ہی توہین محسوس کی جیسی مہاتما گاندھی نے جنوبی افریقہ میں ٹرین سے باہر نکال دیئے جانے کے وقت محسوس کی ہوگی۔اس کے بعدخود کومومن کانفرنس کے لئے وقف کر دیا اور بہت جلدبساط سیاست پر چھا گئے۔ مومن برادری ان کے گرد جمع ہو گئی کیونکہ ان کی رہنمائی میں اسے اپنی سماجی و سیاسی ا±منگوں کی تکمیل کے آثار نظر آنے لگے۔انصاری صاحب نے جب پٹنہ آکر سیاست شروع کی اس وقت بہارمیں مسلم سیاست کے افق پر ڈاکٹر سیّد محمود، بیرسٹر محمد یونس ، مسٹر عزیز، سیّد ظفر امام، سر سلطان احمد اور نواب حسن وغیرہ چمک رہے تھے جنہیں اپنی صلاحیتوں کے ساتھ ہی دولت اورخاندانی و قار بھی حاصل تھا۔ ان کے مقابلے انصاری صاحب کی حیثیت ایک ذرّے کی تھی۔ وہ حضرت مولانا عبداللہ غازی پوری جیسے عظیم عالم دین کے نواسے ضرور تھے لیکن سیاسی میدان میں یہ خوبی کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ انہیں بساط سیاست سے ٹھکرادینے کی کوشش کی گئی لیکن وہ سبھ وں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے آندھی طوفان کی طرح میدان سیاست میں چھا گئے۔

انصاری صاحب مسٹر جناح کے دو قومی نظریے اور تقسیم ہندکے سخت مخالف اورنگریس کی پالیسیوںکی حامی تھے۔ کرپس مشن جب ہندوستان آیا تومسٹر کرپس نے دریافت کیا کہ مسٹر جناح کے مقابلے میں کانگریس کے ساتھ وہ کون سے مسلم رہنما ہیں جو مسلمانوں کے کسی نہ کسی حصے کی ترجمانی کرتے ہیں او رمسلم لیگ اور جناح کے خلاف مسلم عوام کے ایک حصہ کو کانگریس کی جنگ آزادی میں شریک کرسکتے ہیں؟ پنڈت جواہر لعل نہرو نے خان عبدالغفار خان ، مولانا حسین احمد مدنی اور عبدالقیوم انصاری کے نام لیے تھے۔ کانگریس کے حمایتی یہی تین مسلم رہنما تھے، جس کے پیچھے مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ مگر ان تینوں میں انصاری صاحب ہی وہ واحد رہنما تھے جنہیں محنت کش عوام کے ایک بڑے حصے کی تنظیمی قوت کی حمایت حاصل تھی۔یہ واقعہ ہے کہ انصاری صاحب نے جمعیة علماءہند اور خلافت تحریک کے سر کردہ قومی رہنما و¿ں کے مشورے سے کرپس مشن کے سامنے ایک ایسا چھ نکاتی تجویز پیش کی تھی جس میں مرکزی، وفاقی اور ریاستی حکومتوں میں مومن جماعت کی موثر نمائندگی او رمومن انصار عوام کے لیے معقول ریزرویشن نیز دوسری مراعات کا مطالبہ کیا تھا۔ان مطالبات میں وہ زبردست دوراندیشانہ سیاسی حکمت عملی شامل تھی جس سے یہ آسانی کے ساتھ ثابت ہوجا تا کہ مسلمانانِ ہند کی نصف سے زائد آبادی مسلم لیگ کے ساتھ نہیں ہے۔پنڈٹ نہرو نے اگراس تجویزکومسترد نہ کردیا ہوتا تو مسٹر محمد علی جناح تقسیم ہندکے اپنے منصوبے میں شاید کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تقسیم ہند کی ذمہ دار صرف مسلم لیگ ہی نہیں ہے بلکہ خود کانگریس کی اعلیٰ قیادت بھی ہے۔

مومن کانفرنس کے سربراہ کی حیثیت سے انصاری صاحب ہندوستا ن گیر شخصیت کے حامل تھے لیکن پارٹی میں شامل ہوجانے کے باوجود کانگریس کی بالادستی پسند سیاست نے انہیں آگے بڑھنے سے روکا او رکئی بار نظر انداز بھی کیا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو ایک مدبر سیاست داں ہونے کے باوجودانہیں بہار تک ہی محدود نہیں کردیا جاتا۔ 1967ءکے اسمبلی انتخابات میں وہ ڈہری حلقہ سے کامیاب ہوئے تھے لیکن کانگریس کو اکثریت حاصل نہیں ہو ئی اورمخلوط سرکار بنائی گئی جو زیادہ دنوں تک نہیں چلی۔ 1969ءمیں وسط مدتی انتخاب ہوا تو ان کا ٹکٹ ہی کاٹ دیا گیاپھربھی کانگریس وہاں کامیاب نہ ہوسکی۔ اس کے بعد کانگریس نے اپنی غلطی کا تدارک کرتے ہوئے انہیں راجیہ سبھا بھیجا۔محترمہ اندراگاندھی انہیں مرکزی وزیر بناناچاہتی تھیں لیکن عصبیت و بالادستی پسند بعض مسلم رہنماﺅں کے دباﺅمیں وہ ایسا نہیں کر سکیں۔ 1972ءمیں بہار کانگریس میں جب رسہ کشی ہورہی تھی تومتفقہ فیصلہ ہوا کہ عبدالقیوم انصاری کو وزیر اعلی بنایا جائے۔ بہت سے رہنماﺅں نے انہیں مبارکباد بھی دیدی لیکن بتایا جاتا ہے کہ برہمن لابی نے محترمہ اندرا گاندھی کو ورغلا کر کیدار پانڈے کو وزیر اعلیٰ بنوا دیا۔یوں1946 ءسے 1972ءتک وہ بہار کے سیاسی ا±فق پر ایک بااثر سیاستداں کی حیثیت سے چمکتے رہے۔

عوام کی خدمت کے لیے انصاری صاحب ہر لمحہ کمر بستہ رہتے۔ غریبوں کی مالی امدادکرنے،بہتوں کو مہاجنوں کے پنجے سے بچانے اوراور بیگاری و بندھوا مزدوری سے نجات دلانے کے ساتھ ہی غریب بنکر وں کی فلاح و بہبود کے لئے کوآپریٹو سوسائٹیاں قائم کرائیں اوردیگربہت سے مثبت اقدامات کیے۔نادار طلباءکو وظائف دلوانے کے ساتھ ہی ضروری تعلیمی اصلاحات کروائیں اور بی ایم سی مکتب کھلوائے جن کی وجہ سے لاکھوں طلباءکا مستقبل روشن ہوا۔ زندگی بھر ہندو مسلم اتحاداور سماجی و قومی ہم آہنگی کے لیے کوششیں کرتے رہے۔تاحیات مجاہدانہ و درویشانہ زندگی بسر کی جس کی لوگ مثال دیتے ہوئے نہیں تھکتے۔ان کے عادات و اطوار،سادگی ،حلیم،بردباری،دین داری و پرہیز گاری اور بے باکی وحق گوئی کی دنیا قائل ہے جو انہیں اپنے بزرگوں سے ورثے میں ملی تھیں۔یہی وجہ ہے کہ یکساں طور سے سماج کے ہر طبقہ کے اندر محبوب و مقبول تھے۔بالآخر اپنے عہد کا یہ عظیم رہنما ءعوام کی خدمت کرتے ہوئے18 جنوری 1973ءکو اپنے حلقہ¿ انتخاب کے دورے کے درمیان اچانک حرکتِ قلب ر±ک جانے سے وفات پا گئے اورڈہری آن سون میں سپرد کئے گئے۔