پٹنہ
:شہریت ترمیمی بل جیسے فرقہ پرست اور ملک مخالف قوانین کے تباہ کن اور خطرناک نتائج سے خوف زدہ ہونے کے بجائے اس کی مخالفت اور اس پر احتجاج کرنا ضروری ہے۔ انسداد دہشت گردی کے نام پر موجودہ حکومت نے جس طرح عوام کو سازش کا شکار بنایا ہے وہ صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ ملک کے غریب عوام کے لئے بھی خطرناک ہے، اس لئے شہریت ترمیمی بل اوراین آر سی اور جیسے سیاہ قوانین کے خلاف عوام کواحتجاج کرنا چاہئے۔ این آرسی سے بچنے کے لئے دستاویز جمع کرنے کے بجائے اس کی پرزور مخالفت کی جانی چاہئے۔ عوام کی شہریت حکومت طے نہیں کر سکتی۔ ہمیں یہ عزم کرنا چاہئے کہ ہم اپنے ملک کو فرقہ واریت کی بنیاد پرتقسیم نہیں ہونے دیں گے اور کسی ایک فرقہ کو اس کا نشانہ نہیں بننے دیں گے۔ جموں و کشمیر کے معاملے میں مرکزی حکومت کے یکطرفہ فیصلے کے خلاف ملازمت سے استعفیٰ دینے والے آئی اے ایس افسر کنن گوپی ناتھن نے یہ باتیں کہیں۔

جمعرات کو وہ گاندھی سنگرہالیہ میں این آر سی، شہریت ترمیمی بل اور ڈٹنشن کیمپ کے موضوع پر خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اقتدار سنبھالنے والے چند افراد سماج کی گنگا جمنی تہذیب کو تباہی کے ہندو راشٹر کے راستے پر لے جانا چاہتے ہیں۔ وہ اکثریتی اور اقلیتی آبادی کی بنیاد پر ملک کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونکنا چاہتے ہیں۔شہریت ترمیمی بل اور این آر سی کی پیشکش بھی اسی سازش کاحصہ ہے۔ اب ہمیں اس کے نفاذکا انتظار کرنے کے بجائے اس کی سخت مخالفت کرنی چاہئے، احتجاج کے علاوہ ہمارے سامنے کوئی دوسرا راستہ نہیں۔گوپی ناتھن نے کہا کہ سوالات جمہوریت کی جان ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے سیاہ قوانین کے خلاف ملک بھر میں سناٹاچھایاہوا ہے اورہر کوئی زبان کھولنے سے ڈر رہاہے۔ مرکزی حکومت کالا دھن اور دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر جمہوری قوانین میں ترمیم کر کے سیاہ قوانین وضع کرنا چاہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ شہریت ترمیمی بل اور این آر سی کے نام پر مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ اس کے لئے ملک بھر میں ڈٹنشن کیمپ بنائے جارہے ہیں۔ ملک کا وزیر داخلہ علی الاعلان فرقہ پرستی کا کارڈ کھیل رہاہے اورسبھی ریاستوں کو ایڈوائزری جار ی کر کے ڈٹنشن کیمپ بنانے کا حکم دے رہاہے۔

مگر افسو س اس بات کا ہے کہ ملک کے عوام خاموش ہیں، میڈیا اور عوام سوالات کرنے کے بجائے اس کے نفاذ کا انتظار کر رہے ہیں جبکہ بلا تفریق ایسے سیاہ قوانین کی ہر سطح پر مخالفت کرنی چاہئے۔ حکومت کی اس منشا پر خوف زدہ ہونے کے بجائے اس کے خلاف احتجاج کرنا ہوگا۔ جموں وکشمیر کے ۰۸ لاکھ عوام کے بنیادی حقوق پر براہ راست حملے کے خلاف ہم نے اپنی ملازمت چھوڑ دی، وہاں کے منتخب ایم پی اور ایم ایل اے کوبھی نہیں بخشا گیا۔ انہوں نے حکومت کے اس جواز کی بھی سخت مذمت کی اور کہا کہ دہشت گردی کے نام پر یہ عوام کے بنیادی پر براہ راست حملہ ہے۔ایسے سیاہ قوانین کے خلاف ہمیں آواز بلند کرنی ہوگی۔شہریت ترمیمی بل اور این آر سی سے بچاؤکے لئے دستاویز جمع کرنے کے چکر میں پڑنے کے بجائے اس کی پرزور مخالفت ہونی چاہئے ورنہ جس روز شہریت کھو دیں گے تو احتجاج کے لائق بھی نہ ہوں گے۔گوپی ناتھن نے کہا کہ آپ ووٹ کسی کو بھی دیں مگر سوال ضرور کریں اور اس بات کاعزم کریں کریں کہ ہم اس کے خلاف احتجاج کرتے رہیں گے، اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ سمینار کی نظامت محمد غالب نے کی جبکہ صدارت ڈی ایم دیواکر نے انجام دی۔ اس کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ چلا جس میں اس موضوع سے متعلق کئی چبھتے ہوئے سوالات رکھے گئے۔ سوالات رکھنے والوں میں کاشف یونس، انوارالہدیٰ، روی یادو، روبی کماری، وغیرہ کے نام ہیں۔ اس موقع پر ضلع کمیٹی، بھاکپا مالے، جہاں آباد کے شری یادو کے ذریعہ تحریر کردہ ایک رپورٹ جہاں آبا دنگا: آنکھوں دیکھا حال کا بھی اجراء ہوا۔ اس موقع پر ہال کھچاکھچ بھرا تھا حتیٰ کہ ہال کے باہر بھی بھیڑ موجود تھی۔