*مولانا سید عمران اختر عطاری مدنی

حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک بار شعبان کے آخری دن لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے پہلے تو رمضان المبارک کی عظمت و برکت  بیان کی اور پھر فرمایا کہ اللہ پاک نے اس مہینے کے روزے فرض کئے اور رات کا قیام نفل قرار دیا،پھر آپ نے ماہِ رمضان میں نفل کا ثواب فرض ادا کرنے کے برابر اور ایک فرض کا ثواب 70 فرائض ادا کرنے کے برابر قرار دیا، اسی خطاب میں آپ نے ماہِ رمضان کو صبر کرنے کا اور ایک دوسرے کی غم خواری  کرنے کا مہینا فرمایا اور آخر میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مالکان کو غلاموں کے لئے تخفیف و سہولت  پیدا کرنے کی ترغیب دینے کے لئے فرمایا کہ جو اپنے غلاموں پر تخفیف کرے گا اللہ پاک اسے بخش دے گا اور جہنم سے آزادی عطا فرمائے گا۔ ([1])

حدیثِ پاک میں فرمائی گئی مذکورہ نصیحتوں  کی روشنی میں ملازمین و مالکان کے لئے چند باتیں  سمجھنا بہت ضروری ہیں:

(1) رَمضان شریف کے روزے  ہر مسلمان  عاقل و بالغ پر فرض ہیں۔([2])چنانچہ اگر کوئی کمزور ہو یا نوکر و مزدور ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے عملی جوش اور ایمانی حرارت کو ٹھنڈا نہ ہونے دے اور یہ بات ذہن میں رکھے کہ سچا مومن نہ کاہل ہوتا ہے اور نہ ہی سُست، بلکہ وہ رمضان میں روحانی اور جسمانی طورپر غیرِ رمضان سے زیاد ہ چاق وچوبند ہوتا ہے، مومن نہ تو روزہ و نماز وغیرہ عبادات کو اپنے دنیوی معاملات کے لئے رکاوٹ سمجھتا ہے اور نہ ہی معاشی بھاگ دوڑ کی وجہ سے عبادات کو نظر انداز کرتا ہے، لہٰذا وہ کام کاج کی تھکاوٹ کے باوجود بھی اس وجہ سے روزوں کا پابندرہتا ہے کہ میرے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ماہِ رمضان کو صبر کرنے کا مہینا فرمایا ہے  اور  اس ماہِ مبارک میں عبادات کا ثواب بھی بہت زیادہ بتایا ہے، کمزور یا مزدور ہونے کی وجہ سے اگرچہ روزہ میرے لئے دُشوار ہے مگر اس کا اجر بھی تو زیادہ ہے۔

(2)اس حدیثِ پاک میں بالعموم سبھی کے لئے اور بالخصوص مالکان  کے لئے یہ ہدایت موجود ہے کہ ماہِ رمضان غم خواری کا بھی مہینا ہے اور رمضان المبارک کی مناسبت ہی سے غم خواری کی ایک بہت زبردست صورت  اسی حدیث میں موجود ہے کہ مالکان اپنے غلاموں پر تخفیف کریں، فی زمانہ اگرچہ غلام نہیں ہیں مگر مزدور، کاریگر، ڈرائیور،مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ملازمین وغیرہ مُتَعدّد ایسے لوگ آج بھی موجود ہیں جو کسی نہ کسی مالک، افسر اور سربراہ کے تحت رہ کر ان کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں، یہ ماتحت لوگ سردی، گرمی، خزاں، بہار، خوشی، غمی، صحت و بیماری حتی کہ ماہِ رمضان المبارک میں روزے کی حالت میں بھی کام کاج  کی مشقت جھیلنے میں مصروف رہتے ہیں، کیا واقعی کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ان بے چاروں کو تھکاوٹ محسوس نہیں  ہوتی اور یہ آرام نہیں کرنا چاہتے؟ ہرگز نہیں!!یہ بیچارے تھکتے بھی ہیں اور سہولت بھی چاہتے ہیں مگر ان کی گھریلو اور معاشی ضرورتیں انہیں دُشواریاں سہنے پر مجبور رکھتی ہیں خواہ صحت یاب ہوں یا بیمار، عام دنوں میں بغیر روزے کے ہوں یا  رمضان میں روزے سے ہوں۔ لہٰذا مالکان و سربراہان و افسران کو چاہئے کہ اسلامی تعلیمات و انسانیت کے ناطے عام دنوں میں بھی ان کا احساس کریں اور خاص طور پر ماہِ رمضان میں تو ان پر خصوصی نوازشات کریں، نرمی برتیں، ماہِ غم خواری میں ان کے ساتھ غم خواری کریں، خود بھی روزے کے پابند رہیں اور ان بیچاروں کے روزے کا بھی لحاظ کریں، کام میں یا کام کی نوعیت  میں یا پھر کام کے مجموعی وقت  و دورانیہ میں کمی کرکے ان کی دُعائیں بھی لیں اور پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کام میں تخفیف کرنے والوں کو جہنم کی آگ سے آزادی اور مغفرت کی جو بشارت دی ہے اس کے بھی حق دار بن جائیں  اور خود کو اللہ پاک کا پسندیدہ بندہ بھی بنا لیں، حدیثِ پاک میں ہے: تمام مخلوق اللہ پاک کی عیال ہے اور اللہ پاک کا سب سے زیادہ پسندیدہ بندہ وہ ہے جواس کی عیال کو زیادہ فائدہ پہنچائے۔([3])

ماں باپ اپنے بیٹوں سے ، شوہر اپنی بیوی سے  اور گھر کے افراد اپنی ماں اور بہنوں سے کام کاج کروانے اور  مختلف خدمات لینے کے معاملے میں بھی جہاں تک ممکن ہو ان باتوں کا لحاظ رکھیں  اور کام میں کمی کریں۔

اللہ پاک ہم کو رمضان المبارک کی برکتوں سے مالا مال فرمائےاور ملازمین و ماتحتوں کو آسانیاں دینے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغُ التحصیل جامعۃُ المدینہ، شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی


([1])دیکھئے:صحیح ابنِ خزیمہ، 3/191، حدیث: 1887

([2])در مختار و رد المحتار، 3 / 383

([3])معجم کبیر، 10 / 86، حدیث: 10033

ماہنامہ فیضانِ مدینہ