جاوید اختر
مسابقتی امتحانات میں داخلے کے لیے ‘کوچنگ ہب’ کے طورپر مشہور راجستھان کے شہر کوٹہ میں طلبہ کی خودکشی کا سلسلہ رک نہیں رہا۔ پچھلے آٹھ ماہ میں 24طلبہ خودکشی کر چکے ہیں ان میں سے 13ایسے تھے جوچند ماہ قبل ہی یہاں آئے تھے۔تضادات سے پر سماج میں والدین کا ایک بڑا طبقہ خود کو نمایاں کرنے کا بوجھ بچوں کے ناتواں کندھوں پر ڈال دیتا ہے۔ بچوں کا ڈاکٹر یا انجینئر بننا سماج میں ممتاز ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے اورکوچنگ ادارے اسی خواہش کا استحصال کرتے ہیں۔
راجستھان کے شہر کوٹہ میں پورے ملک سے بچے آتے ہیں جہاں موجود سینکڑوں کوچنگ ادارے انہیں میڈیکل یاانجینئرنگ کالجوں میں داخلے کے امتحانات میں کامیابی دلا کر ان کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا بھروسہ دلاتے ہیں۔لیکن بیشتر لوگوں کے خواب پورے نہیں ہوتے۔ ملک میں چند ایک کو چھوڑ کر تقریباً تمام سرکاری اور پرائیوٹ انجینئرنگ اور میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے طلبہ کو بالترتیب جے ای ای (جوائنٹ انٹرنس ایگزامنیشن) یانیٹ(نیشنل ایلیجبلیٹی کم انٹرنس ٹیسٹ) میں حصہ لینا پڑتا ہے۔یہ مسابقتی امتحانات کافی مشکل ہیں اور ان میں شریک ہونے والے لاکھوں طلبہ میں سے صرف چند ہزار ہی اچھے کالجوں میں داخلہ پانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
کوٹہ ایک بار پھر خبروں میں کیوں؟
کوٹہ کو ‘کوچنگ ہب ‘کہا جاتا ہے لیکن یہ خودکشی کے مرکز کے طورپر مشہور ہوتا جارہا ہے۔گذشتہ 27اگست کو صرف چار گھنٹے کے وقفے سے یہاں دو طالب علموں نے خودکشی کرلی۔ان میں سے ایک 18سال کا آدرش بہار کا رہنے والا تھا اور صرف چار ماہ قبل ہی نیٹ کی تیاری کے لیے یہاں آیا تھا۔دوسرا مہاراشٹر کا 17سالہ سمباجی کالسے تھا۔جو پچھلے تین سال سے نیٹ میں کامیابی کے لیے محنت کررہا تھا۔خودکشی کے ان واقعات کے بعد مسابقتی امتحانات کی وجہ سے طلبہ پر پڑنے والے دباو اور ان کے اندر بڑھتی ہوئی مایوسی نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔آدرش اپنے معمول کے ٹسٹ میں 700میں سے صرف 250مارکس لا پارہا تھاجس کی وجہ سے کافی پریشان تھا۔ کیونکہ اتنے کم مارکس کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ بالآخر وہ اس دباو کو برداشت نہ کرسکا اور زندگی کو ختم کرنے کا انتہائی قدم اٹھالیا۔
بارہ سال میں 150سے زیادہ طلبہ نے خودکشی کرلیایک محتاط اندازے کے مطابق پچھلے
بارہ سال میں کوٹہ میں 150سے زائد طلبہ خودکشی کرچکے ہیں
کوٹہ پولیس کی طرف سے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ دسمبر میں چار طلبہ نے خودکشی کرلی تھی جس کے ساتھ سن 2022میں خودکشی کرنے والوں تعداد 15ہوگئی تھی۔ سن 2015میں 17طلبہ نے، سن 2016میں 16طلبہ نے، سن 2017میں سات، سن 2018میں 20اور سن 2019میں آٹھ طلبہ نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ سن 2020اور 2021میں کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے کوچنگ ادارے بند رہے اس لیے خودکشیوں کی تعداد صرف چار اور ایک رہی۔
طلبہ پر والدین کی امیدوں کا بوجھ
پٹنہ میں ایک کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرکہتے ہیں،”جے ای ای یا نیٹ امتحان کا جو پیٹرن ہے اس سے بچوں پر پڑھائی کا کافی دباؤ رہتا ہے۔ انہیں ایک ایک نمبر کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے اور نگیٹیو مارکنگ اسے مزید مشکل بنادیتا ہے۔ اس لیے کوچنگ کے ٹسٹ میں پیچھے رہنے پر انہیں اپنا وجود ہی خطرے میں دکھائی دینے لگتا ہے۔” ایک صحافی نے اس حوالے سے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کوچنگ ٹسٹ میں کم نمبر لانے کی وجہ سے ان کی بیٹی کس طرح ڈپریشن کا شکار ہوگئی۔ اورکافی علاج اور کاونسلنگ کے بعد ہی وہ اس صورت حال سے نکلنے میں کامیاب ہوسکی۔سائیکالوجی کی استاذ رشمی شیکھر کا کہنا تھا،” اس صورت حال کے لیے والدین کے توقعات بھی کافی حد تک ذمہ دار ہیں۔ کوئی بھی بچہ اپنی صلاحیت کے مطابق ہی چیزوں کو سمجھتا ہے۔ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے اس پر دباو ڈالنا نہیں چاہئے اورپاس پڑوس کے بچوں کی کامیابی کو دیکھ کر تو قطعی نہیں۔”
‘یہ ٹریڈ مل ‘ہے
طلبہ حساس ہوتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ والدین ان پر کافی پیسے خرچ کررہے ہیں ایسے میں وہ خود کو ناکام نہیں دیکھنا چاہتے۔ اس سے ان کے لیے ‘کرو یا مرو’ جیسی صورت حال پید اہوجاتی ہے اورجب وہ دباو برداشت نہیں کرپاتے تو انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کرلیتے ہیں۔جے ای ای کی تیاری کرنے والی اوڈیشہ کے ایک طالبہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ پچھلے دو سال سے کوٹہ میں ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان کی زندگی ایک ‘ٹریڈ مل’بن کر رہ گئی ہے۔وہ کہتی ہیں “یہ ٹریڈ مل پر دوڑنے کی طرح ہے۔ آپ کے پاس صر ف دو ہی متبادل ہوتے ہیں یا تو اس سے اتر جائیں یا پھر دوڑتے رہیں۔ آپ وقفہ نہیں لے سکتے۔ اپنی رفتار سست نہیں کرسکتے، بس صرف دوڑتے رہنا ہے۔”ایک دیگر طالب علم کا کہنا تھا کہ اگرآپ کچھ دیر بھی پڑھائی نہیں کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے وقت برباد کردیا، جس سے احساس جرم پیدا ہوتا ہے اور دباو کی وجہ سے کارکردگی مزید متاثر ہوتی ہے۔کوٹہ میں ایک حالیہ سروے سے پتہ چلا ہے کہ وہاں کوچنگ حاصل کرنے والے طلبہ ایک دوسرے کو دوست سمجھنے کے بجائے مدمقابل اور اپنی کامیابی کی راہ میں کانٹا سمجھتے ہیں۔ اور اسے ہرا کر خود کوکامیاب بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
گھر سے دوری بھی خودکشی کی ایک وجہ
ماہرین کہتے ہیں کہ گھر سے دور رہ کر تعلیم حاصل کرنے والے بچے تنہائی محسوس کرتے ہیں اور کئی مرتبہ ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جس کا علم نہ تو کوچنگ انسٹی ٹیوٹ ہوتا ہے اور نہ ہی والدین کو۔بعض والدین کو اس کا احساس ہے۔ اس لیے وہ کوچنگ کے دوران بچوں کے ساتھ رہناچاہتے ہیں۔ لیکن ایسا ہر ایک کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اپنی بیٹی کے ساتھ کوٹہ میں دو سال تک رہ کر کوچنگ مکمل کرانے والی ایک خاتون انجم(بدلا ہوا نام) نے بتایا کہ” وہ اپنے گھر اور شوہر سے دو سال تک دور رہیں تاکہ ان کی بیٹی کو کسی طرح کی پریشانی نہ ہو۔حالانکہ اس کا مالی بوجھ بھی ان پر پڑا لیکن اپنی بیٹی کے بہتر مستقبل کی امید میں انہوں نے یہ سب برداشت کیا۔” یہ الگ بات کہ لاکھوں روپے خرچ کرنے کے باوجود وہ اتنا مارکس نہیں لاسکی کہ کسی مشہور انجینئرنگ کالج میں داخلہ مل سکے۔ بیشتر طلبہ کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔
کوچنگ:اربوں روپے کی صنعت
کوٹہ میں ہر سال تقریبا ً ڈھائی لاکھ طلبہ کوچنگ اداروں میں داخلہ لیتے ہیں۔ یہا ں چار ہزار سے زیادہ ہاسٹل اور چالیس ہزار سے زیادہ پی جی(پیئنگ گیسٹ) ہیں، جہاں بچے رہتے ہیں۔کوچنگ کی فیس سالانہ ایک سے دو لاکھ کے قریب ہوتی ہے اور بچوں کے قیام و طعام پر فی کس ماہانہ سات سے پندرہ ہزار روپے تک کا علیحدہ خرچ آتا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق کوٹہ میں کوچنگ کی صنعت تقریباً 12000 کرو ڑ روپے کی ہے۔خودکشی کے لیے ذمے دار کون؟ماہرین کا کہنا ہے کہ طلبہ کی خودکشی کے لیے کسی ایک کو ذمے دار ٹھہرانا مناسب نہیں ہوگا۔اور اس رجحان کو روکنے کے لیے کئی محاذوں پر مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جس میں حکومت، کوچنگ اداروں اور سرپرست ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔والدین کو سمجھنا ہوگا کہ ہر بچے کی صلاحیت مختلف ہوتی ہے۔ انہیں بچے کی پسند کے برخلاف ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے لیے دباو ڈالنا درست نہیں ہے۔ کوچنگ انسٹی ٹیوٹس کو اپنے طریقہ کار ایسا بنانا ہوگا جس سے طلبہ کے دماغ پر غیر ضروری دباو نہ پڑے۔ جب کہ حکومت اس امر کویقینی بنانا ہوگا کہ کوچنگ ادارے رہنما خطوط پر عمل درآمدکریں۔
سپر 30کے آنند کمار کا مشورہ’
سپر 30 ‘ کے بانی اور ریاضی دا ں آنند کمار، جو انجینئرنگ کے بہترین کالجوں میں داخلے میں سینکڑوں طلبہ کی مددکرچکے ہیں اور جن کی زندگی پر بالی وڈ میں فلم بھی بن چکی ہے، کوٹہ کے حالات سے خاصے فکر مند ہیں۔انہوں نے ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں کوچنگ سینٹروں سے طلبہ کو “اپنا بچہ “سمجھتے ہوئے ان پر پوری توجہ دینے کی اپیل کی۔ انہوں نے لکھا،”میں کوچنگ چلانے والوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ تعلیم کو صرف پیسہ کمانے کا ذریعہ نہ سمجھیں بلکہ بچوں کو اپنا بچہ سمجھتے ہوئے ان پر توجہ دیں۔” انہوں نے مزید لکھا،”میں طلبہ سے بھی کہنا چاہوں گا کہ صرف ایک امتحان آپ کی صلاحیتوں کا فیصلہ نہیں کرتا۔ زندگی میں کامیاب ہونے کے ایک سے زائد طریقے ہیں۔ اسی کے ساتھ والدین کو بھی اپنے ادھورے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے بچوں پر دباو نہیں ڈالنا چاہئے۔
“حکومت کیا کررہی ہے؟
کوٹہ کی ضلع انتظامیہ نے ہاسٹلوں یا پی جی والے کمروں کے لیے کئی ہدایتیں جاری کی ہیں۔ ان میں اسپرنگ لوڈڈ پنکھے لگانے کا حکم دیا ہے تاکہ اگر کئی طالب علم پنکھے سے لٹک کر خودکشی کرنے کی کوشش کرے تو پنکھا گر جائے اور اس کی جان بچ جائے۔ انہوں نے بالکنی میں جال لگانے کی بھی ہدایت دی ہے۔ کوٹہ کے کلکٹر نے کوچنگ اداروں میں دو ماہ تک کوئی امتحان نہ لینے کی ہدایت بھی دی ہے۔حالانکہ لوگوں نے ان طریقہ کار کو فضول کوشش قرار دیا ہے۔خودکشی کے بڑھتے واقعات کے مدنظرراجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے ایک کمیٹی قائم کی ہے اور اسے پندرہ دن کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے کہا ہے۔ اس کمیٹی میں کوچنگ اداروں کے نمائندوں کے علاوہ والدین اور ڈاکٹروں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ان طریقہ کار سے طلبہ کی خودکشی رک جائے گی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ شاید نہیں۔ماہرین تعلیم نظام تعلیم اور امتحانات کے طریقہ کار میں انقلابی تبدیلی پر زور دیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ والدین اور بچوں کو بھی زندگی میں کامیابی کے حوالے سے اپنا نظریہ بدلنے کی ضرورت ہے۔