، انقرہ سے افتخار گیلانی

ترکیہ میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کا بگل بج چکا ہے ۔ حال ہی میں صدر رجب طیب اردوان نے پارلیمنٹ اور اپنی صدرات کی مدت ختم ہونے سے ایک ماہ قبل ہی یعنی 14مئی کو انتخابات منعقد کروانے کا اعلان کردیاہے۔ چونکہ یہ انتخابات اردوان کی قسمت کا فیصلہ کریں گے، اسلئے پوری دنیا کی نگاہیں ان پر ٹکی ہوئی ہیں۔

کئی بین الاقوامی جریدے ان انتخابات کو ایک سنگ میل قرار دیتے ہیں، جس کے نتائج نہ صرف خطے پر بلکہ پوری دنیا پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔اردوان کے دور میں اسلامی دنیا کی لیڈرشپ حاصل کرنے کی خواہش کے علاوہ جس طرح ترکیہ نے اپنے مفادات مشرق وسطیٰ، وسط ایشیاء حتیٰ کہ جنوبی امریکہ تک وسیع کئے ہیں اور پھر حال میں رو س اور یوکرین کی جنگ میں مغرب اور روس کے درمیان رابطے کی کڑی کے طور پر کام کیا ہے، اس کی وجہ سے یہ انتخابات خاصی اہمیت حاصل کر گئے ہیں۔ روس سے میزائل شیلڈ خریدنے اور نیٹوکا ممبر ہونے کے باوجود امریکہ کے ساتھ تعلقات میں آئی سرد مہری ، یونان کے ساتھ کشیدگی کی وجہ سے مغربی دنیا اردوان کے دور کے خاتمہ کی خواہاں ہے اور امریکی انتخابات سے قبل صدر جو بائیڈن تواس کا برملا اظہار بھی کر چکے ہیں۔

ابھی تک رائے عامہ کے جوابتدائی جائزے شائع ہوئے ہیں، ان کے مطابق حکمران اتحاد اور اپوزیشن کے درمیان کانٹے کامقابلہ ہونے کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔ صدر کے علاوہ ترکیہ کے ووٹر 600اراکین پارلیمنٹ کو بھی اسی دن منتخب کریں گے۔ گو کہ پارلیمانی انتخابات کیلئے تقریباً 120چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں قسمت آزمائی کریں گی مگر صدارتی انتخاب کیلئے 14جماعتیں، مختلف اتحادوں میں شامل ہوکر زور آزمائی کریں گی۔ 1923میں جب مصطفیٰ کمال اتا ترک نے ترکیہ کو ایک جمہوری ملک ڈیکلیر کیا تو برطانیہ کی طرز پر ایک پارلیمانی نظام کی داغ بیل ڈالی۔ مگر 2016میں فوجی بغاوت کو شکست دیکر جب اردوان اپنی مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہے تھے تو انہوں نے اس کے اگلے سال ریفرنڈم کے ذریعے صدارتی نظام کو لاگو کروایا۔ جس کے نتیجے میں جون 2018 میں پہلی بار براہ راست صدارتی انتخابات ہوئے۔ اس انتخاب میں اردوان کو 52.51فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ گو کہ اردووان 2014میں ہی وزارت عظمیٰ سے الگ ہوکر صدر کے عہدے پر فائز ہو گئے تھے مگر 2018تک یہ عہدہ نمائشی ہوتا تھا۔ ترکیہ کے آئین کے مطابق جیتنے والے صدارتی امیدوار کیلئے 50فیصد جمع ایک ووٹ لینا لازمی ہے۔

Image

اگر کسی بھی امیدوار کو مطلوبہ ووٹ نہیں ملتے ہیں تو دوسرے راونڈ میں پہلے دو نمبروں پر آنے والے امیدواروں کے درمیان ایک بار پھر انتخابی معرکہ آرائی ہوگی۔ مزید کوئی صدر اپنی دو ٹرم مکمل کرنے کے بعد انتخابات میںبطور امیدوار کھڑا نہیں ہوسکتا ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شاید اسی لئے اردوان نے انتخابات کی تاریخ ایک ماہ پہلے ہی رکھی ہے تاکہ وہ پھر سے امیدواری کے اہل ہوجائیں۔ چونکہ اپوزیشن عدالتی چارہ جوئی کیلئے کمر کس رہی ہے، اردوان کا کہنا ہے کہ ان کی صدراتی مدت کاتعین 2018سے کیا جائے نہ کہ 2014سے ۔ کیونکہ ریفرنڈم سے قبل تو وہ بس نمائشی صدر تھے۔ اگر ترکیہ کے سیاسی منظر نامہ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ میدان میں دو سیاسی اتحاد ہیں۔

اردوان کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ یعنی آک پارٹی کی قیاد ت میں چار جماعتی اتحاد کا نام جمہوری اتحاد یا ڈیموکریٹک الائنس ہے۔ دوسری طرف سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی یعنی سی ایچ پی یا جہے پے کی قیادت میں چھ رکنی ملی یا قومی اتحاد ہے۔ اتا ترک کی قائم کردہ سی ایچ پی نے پچھلے سو سالوں میں سب سے زیادہ مدت تک حکومت کی ہے اور کل 27میں سے 13وزراء اعظم اسی پارٹی کے بر سر اقتدار رہے ہیں۔ مگر یہ پارٹی اب 1979سے اقتدار سے مسلسل باہر ہے۔ اردوان کی آک پارٹی اسلامسٹ رفاء یا ویلفیر پارٹی کے بکھرنے کے بعد تشکیل پائی تھی۔ رفاء پارٹی کے صدر نجم الدین اربکان 1996 میں وزیر اعظم منتخب ہو گئے تھے مگر اگلے سال ہی فوج نے ان کا تختہ پلٹ دیا۔ چونکہ اسلامی پارٹیوں کو انتخابات میں شرکت کی اجازت نہیں تھی اس لئے اردوان نے سینٹر رائٹ نظریہ کو اپنا کر قسمت آزمائی کی اور 2002سے ا نکی پارٹی مسلسل اقتدار میں ہے۔ حکمران اتحاد کے دیگر اراکیں میں دولت باچیلی کی قوم پرست ایم ایچ پی، مصطفیٰ دستیچی کی اسلامسٹ گریٹ یونین پارٹی اور دوگو پرنجک کی بائیں بازو کے نظریات کی وطن پارٹی ہے۔

دوسری طرف سی ایچ پی کی قیادت میں اپوزیشن ملی اتحاد میں سینٹر رائیٹ گڈ پارٹی ، ڈیموکریٹک پارٹی، اسلامسٹ سعادت پارٹی، سابق وزیر خزانہ علی بابا جان کی دیو ا پارٹی اور سابق وزیر اعظم احمد دیوتولو کی فیوچر پارٹی شامل ہے۔ اس چھ رکنی اتحاد کو ٹیبل آف سکس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ بابا جان اردوان کے ابتدائی دور میں ان کی کابینہ میں وزیر خزانہ تھے اور بھارت میں من موہن سنگھ کی طرح معاشی اصلاحات ، جنہوں نے ترکیہ میں خوشحالی کا دور شروع کیا، کے خالق تصور کئے جاتے ہیں۔ وہ 2007سے 2009تک وزیر خارجہ بھی رہے۔ ان دو اتحادوں کے علاوہ سب سے اہم کردوں کی پارٹی ایچ ڈی پی ہے۔ فی الوقت اس پارٹی کے پارلیمنٹ میں 56اراکین ہیں اور اس کے پاس 8سے 12فیصد ووٹ ہے۔ فی الحال اس پارٹی نے کسی بھی اتحاد کی حمایت سے انکار کردیا ہے اور عندیہ دیا ہے کہ وہ اپنا امیدوار صدارتی انتخاب میں اتارے گی۔ اگر انتخاب دوسرے راونڈ میں پہنچتا ہے تو اس پارٹی کی حمایت کسی بھی امیدوار کو جتانے کیلئے فیصلہ کن کردار ادا کریگی۔اس کے لیڈر صلاح الدین دیمریاس 2016سے جیل میں بند ہیں۔ اپوزیش کی سب سے بڑی کمزروی یہ ہے کہ وہ ابھی تک ایک مشترکہ صدارتی امیدوار کا اعلان نہیں کر پارہی ۔ حال ہی میں 26 جنوری کو انقرہ میں چھ پارٹیوں کی دس گھنٹے تک چلنے والی میٹنگ بھی امیدوار کا فیصلہ نہیں کر پائی۔ اب اگلی میٹنگ فروری کے وسط میں ہونے والی ہے۔ سی ایچ پی کے سربراہ کمال کلی چی دارولو کے نام پر اتفاق رائے شاید ہی ممکن ہوپائے گا۔ ایک تو ان کا لو پروفائل نیچر، پھر ان کا علوی بیک گراونڈ، ان کو ایک ہائی پروفائل امیدوار اردوان کو سخت مقابلہ دینے کی سکت شاید نہیں دے سکے گا۔ ان کے علاوہ سی ایچ پی کے ہی استنبول کے میئر اکرام امام اولو اور انقرہ کے میئر منصور یاواش مضبوط امیدواروںکے بطور ابھر رہے ہیں۔ چونکہ ترکیہ میں صوبائی حکومتیں نہیں ہوتی اس لئے ملک کے سب سے بڑے شہر استنبول کے میئر کا مقام ملک کی سیاست میں وہی ہے، جو بھارت میں اتر پردیش اور پاکستان میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کاہوتا ہے۔

اپوزیشن اتحاد میں گڈ پارٹی کی سربراہ میرال اکسی نر بھی مشترکہ امیدوار کے بطور حمایت حاصل کرنے کیلئے خاصی تگ ودو کر رہی ہیں۔ دارلحکومت انقرہ میں مختلف جگہوں پر ان کے پوسٹر آویزاں نظر آتے ہیں۔ وہ وزیر داخلہ اور نائب سپیکر بھی رہ چکی ہیں۔ امام اولو کو ابھی حال ہی میں ایک عدالت نے 2019میں الیکشن کمیشن کی توہین کے ایک کیس میں دو سال قید کی سزا سنائی ہے۔ گو کہ اعلیٰ عدالت نے اس فیصلہ پر روک لگائی ہے مگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ان کو صدارتی امیدوار کی دوڑ سے باہر کرنے کی کوشش تھی۔ مگر یہ ان کیلئے ایک نعمت ثابت ہوئی ہے ۔ سینئر تجزیہ کار مہمت اوز ترک کے مطابق اس فیصلہ سے امام اولو کو ہمدردی کا ووٹ اور اپوزیشن کو اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کا موقع ملا ہے۔ ایساہی کچھ کئی دہائی قبل اردوان کے ساتھ بھی ہوا تھا، جب وہ استنبول کے میئر تھے اور ان کو قید کر دیا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے ان کی مقبولیت کا گراف اونچا ہوتا گیا ، حتیٰ کہ وہ وزیر اعظم اور پھر صدر بن گئے۔ حال ہی میں جاری رائے عامہ کے جائزے کے مطابق اپوزیشن قومی یا ملی اتحاد کو 42.6فیصد، جبکہ حکومتی جمہوری اتحاد کو38.2فیصد ووٹ ملنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔ مگر اردوان کی آک پارٹی ابھی بھی32فیصد ووٹ لیکر سب سے آگے ہے ، جبکہ سی ایچ پی 23.5فیصد ووٹ لیکر کافی پیچھے ہے۔ اس لئے ایک مضبوط اتحاد ہی اگلے صدارتی امیدوار کا فیصلہ کریگا۔

چونکہ اپوزیشن نے ابھی اپنے امیدوار کا اعلان نہیں کیا ہے اس لئے رائے عامہ کا جائزہ مرتب کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ابھی نتائج کا اندازہ لگانا قبل از وقت ہوگا۔ مگر یہ تو طے ہے کہ ابتر ہوئی معاشی صورت حال نے اردوان کیلئے مشکلات کھڑی کی ہیں۔ ابھی حال ہی میں مخالفین کا منہ بند کرنے کیلئے کم از کم اجرت 8,500ترکش لیرا یعنی 445ڈالر کی گئی ہے۔ آک پارٹی کے ترجمان عمر جیلک کے مطابق اگلے چند ماہ میں ایسے کئی اور اقدامات کئے جائینگے، جس سے عوام کو معاشی بھنور سے نکلنے میں مدد مل سکے گی۔ 2019میں چار لیرا کا ایک ڈالر ہوتا تھا، جو اب بڑھ کر 18سے 20لیرا تک پہنچ گیا ہے۔ چونکہ ترکیہ کی معیشت گلوبل مارکیٹ سے مربوط ہے، لیرا کی تنزلی کا اثر ہر شعبہ زندگی پر پڑا ہے۔ مکانوں کے کرایہ سے لیکر اشیاء خوردنی مہنگی ہوگئی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اردوان کی مسلسل کامیابی کا راز ہی ملک کو معاشی استحکام دینے میں پوشیدہ ہے۔ ان کے ابتدائی دس سالوں میں یعنی 2013 تک فی کس آمدنی 12, 582ڈالر سالانہ پہنچ گئی تھی۔ 2003میں یہ بس 4739ڈالر تھی۔ اس کی وجہ سے آبادی کا ایک بڑا طبقہ غربت کی لائن سے باہر نکل گیا۔ اس کے بعد عالمی کساد بازاری کے پاوٗںجمالئے، مگر ان ابتدائی دس سالوں میں دور رس پالیسیوں کی وجہ سے جو ڈھانچہ بن گیا تھا اس نے مینوفیکچرنگ وغیرہ کو برقرار رکھنے میں مدد دی۔ اس کے علاوہ سیاحت کے شعبہ نے بھی خاصی ترقی کی۔ ترکیہ دفاعی ساز و سامان تیار کرنے والا ایک اہم ملک بن گیا۔ اس آسودگی کی وجہ سے اردوان نے پوری آبادی کو سوشل سیکورٹی نیٹ میں شامل کردیا۔ یعنی مفت صحت عامہ کی سہولت، سرکاری و پرائیوٹ دفاتر میں میں ملازمین کو دن کا ایک کھانا مفت کھلانا لازمی رکھنا، بزرگوں کیلئے مفت روٹی اور ٹرانسپورٹ کی سہولت، نوجوانوں کیلئے مفت تعلیم اور گریجوایشن کے بعد ڈیڑھ سال تک بے روزگاری، بھتہ، قومی تہواروں اور عیدین کے تین دن شہروں میں مفت ٹرانسپورٹ وغیرہ کچھ ایسے اقدامات تھے جنہوں نے اردوان کے اقتدار کو دوام بخشا۔ دوسری طرف اردوان کے ابتدائی دنوں میں ترکیہ نے یورپی یونین میں شامل ہونے کیلئے جو مذاکرات شروع کئے، ان کی وجہ سے جو اصلاحات کرنی پڑیں، اس سے لوکل باڈیز کو اختیارات تفویض کرنا اور ورلڈ کلاس انفرا سٹرکچر کو بنانے میں مدد ملی۔ یہ مذاکرات اب عرصے سے تعطل کا شکار ہیں۔ معیشت کو دوبارہ پٹڑی پر لانے کیلئے اردوان نے حال کے عرصے میں اختلافات کو پس پشت ڈال کر سعودی عرب اور متحدہ امارات کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ استوار کیا اور لگ رہا ہے مصر اور شام کے ساتھ بھی تعلقات کو بہتر بنانے کی سعی ہو رہی ہے۔ ترکیہ کے چار خطوں میں اناطولیہ یا ایشیاء کوچک اردوان کی سیاست کا ووٹ بینک مانا جاتا ہے۔ یہ خطہ نہایت غریب اور دیگر خطوں کے مقابلے پسماندہ مانا جاتا تھا۔ اسی خطے کی آبادی کا معیار زندگی اردوان نے اونچا کرکے ان کو استنبول و دیگر خطوں کی اشرافیہ کے مقابلے میںکھڑا کردیا۔ دیگر خطوں میںبحر اسود کا ساحلی علاقہ کارادینز اور بحر روم کے کنارے والا علاقہ آکا دینز ہے۔ یورپ کے علاقہ کو تھریس یا ٹریکیا کہتے ہیں۔ اشرافیہ کا یہ علاقہ اپوزیشن سی ایچ پی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ معاشی خوشحالی کے علاوہ سیاسی میدان میں اردوان کی سب سے بڑی کامیابی ترکیہ کی سیاست میں فوج کے کردار کو ختم کرنا ہے۔ اس ملک میں کئی بار فوج نے مداخلت کی اور عدالتوں کے ذریعے بھی کئی سویلین حکومتوں کو برخاست کروایا۔ مصنف سائم کوروباس کے مطابق 1960سے ہی فوج نے چار حکومتوں کو برخاست کیا اور کئی وزراء اعظم کو نظر بند کردیا۔14 مئی 1950 کو ملک کے پہلے کثیر جماعتی انتخابات میں عدنان مینڈرس وزیر اعظم منتخب ہو گئے تھے، مگر1960میں ان کا تختہ الٹ دیا گیا اور نظر بندی کے ایک سال بعد ان کو ایمارلی جزیرہ میں تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ اردوان نے شاید اسی لئے انتخابات کی تاریخ 14مئی رکھی ہے۔ ایمارلی جزیرہ کو اب ڈیموکریسی آئی لینڈ کے نام سے جانا جاتا ہے اور ہر سال 14مئی کو یوم جمہوریت مناکر عدنان مینڈرس کو یاد کیا جاتا ہے۔

کوروباس کا کہنا ہے کہ اردوان کو طاقت ور فوج کو سویلین وزارت دفاع کے ماتحت کرنے کیلئے تاریخ میں یاد کیا جائیگا۔ اس کے دور میں آئین میں ترمیم کرکے مارشل لاء کو نافذ کرنے کی دفعات کو ہی منسوخ کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ 17رکنی آئینی عدالت میں دو جج فوج کے ہوتے تھے۔ اس روایت کو بھی ختم کردیا گیا اور اب سبھی جج سویلین ہوتے ہیں۔ تاہم اردوان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ 2018کے بعد ایک شخص واحد کے ہاتھ میں طاقت مرکوز ہوکر احتساب کے دروازے بند ہو گئے ہیں۔ براہ راست صدر کے منتخب ہونے سے پارلیمنٹ کا رول ہی ختم ہو گیا۔ فوج سے چھٹکارا تو ملا مگر سویلین آمرانہ نظام قائم ہوگیا۔ اس کا براہ راست اثر معیشت پر بھی پڑا۔ دو وزراء خزانہ اور تین سینٹرل بینک کے گورنر برطرف کئے گئے، جس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہوگیا۔ گو کہ ترک اس پر متفق ہیں کہ پچھلی دو دہائیوں سے ترکیہ نے جو ترقی کی ہے اور اقوام عالم میں جو مقام بنایا ہے و ہ اردوان کی دین ہے، مگر اکثر نوجوان ترکوں کا خیال ہے کہ اردوان کے پاس جو کچھ تھا، وہ سب وہ دے چکا ہے۔ اب اس کے پاس دینے کیلئے کچھ بچا نہیں ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ معیشت نے ہی اردوان کو مقبولیت کی بلندی تک پہنچایا اور اب یہی معیشت اس کے زوال کا سبب بھی بن رہی ہے۔ مگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اردوان اپنے پٹارہ سے کسی بھی وقت کچھ ایسا نکالنے کی طاقت رکھتا ہے، جس سے مخالفین کے ہوش اڑ سکتے ہیں۔ مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسکو ٹکر دینے کیلئے اپوزیشن اسکے ہم پلہ کوئی امیدوار ابھی تک لانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی ہے۔