جمعیت علماءبہار کی مجلس عاملہ کی نشست میں تعزیتی اظہار و خیال و دیگر اہم تجاویز پاس

پٹنہ : جمعیت علماءبہار کے مجلس عاملہ و مدعوئین خصوصی کی ایک اہم نشست جمعیت علماءبہار کے بزرگ نائب صدر مولانا مطیع الرحمٰن کی صدارت میں آج مدنی مسافر خانہ میں منعقد ہوئی ۔ نشست کا آغاز قاری محب اللہ عرفانی کے تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔ اسکے بعد میٹنگ کا باضابطہ آغاز ہوا اور سب سے پہلے جمعیت علماءبہار کے پہلے ایجنڈے کے مطابق تعزیتی تجویز پیشکرتے ہوئے جمعیت علماءبہار کے قائم مقام ناظم اعلیٰ مولانا سید شاہ مشہود احمد قادری ندوی نے کہا کہ مرضی الٰہی کے مطابق انسان اس دنیا کے اندر آتا ہے اور وقت موعود پر رب کے حضور میں اسکے حکم سے حاضر ہوجاتا ہے ۔ یوں تو اس دنیا میں اموات کا سلسلہ صبح وشام رہتا ہے اور نظام ِ زندگی کچھ اسی انداز سے چلتی رہتی ہے۔ مگر ان میں کچھ اہم شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا اس دنیا سے چلاجانا ملت کے نقصان کا سبب بنا کرتا ہے ۔ گذشتہ دنوں عالمی وباءکی بناءپر بہت ساری اہم اور مقتدر شخصیتیں ہمارے درمیان سے رخصت ہوگئیں ۔ جمعیت بہار کی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس ان تمام مرحومین کے لئے اپنے رنج وغم کا اظہار کرتا ہے اور دعاءگو ہے کہ اللہ پاک ان تمام کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے اور ان حضرات کے رحلت کرجانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پُر فرمائے اور قوم وملت کو اس کانعم البدل عطا فرمائے۔متوفیان کے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں۔(۱) حضرت امیر شریعت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب رحمة اللہ علیہ (۲) جناب قاری محمد معین الدین صاحب قاسمی صدر جمعیت علماءبہار (۳) جناب الحاج حُسن احمد قادری صاحب ناظم اعلیٰ جمعیت علماءبہار (۴) جناب مولانا محمد حدیث قاسمی صاحب نائب صدر جمعیت علماءبہار (۵) امیر الہند قاری محمد عثمان صاحب منصور پوری (۶) مولانا حبیب الرحمان صاحب اعظمی رکن عاملہ جمعیة علماءہند(۷) مولانانور عالم خلیل امینی صاحب دارالعلوم دیوبند (۸) قاضی عبد الجلیل قاسمی ، قاضی شریعت امارت شرعیہ (۹) مولانا سید حمزہ حسنی صاحب ندوی دارالعلوم ندوة العلماء (۰۱) مولانا نذالحفیظ صاحب ندوی دارالعلوم ندوة العلماء (۱۱) ڈاکٹر شہاب الدین صاحب، سابق ایم پی (۲۱) جناب فراق احمد صاحب( آئی اے ایس)(۳۱) مولانا محفوظ الرحمٰن عثمانی صاحب سپول (۴۱) مولانا رحمت اللہ رحمانی خانقاہ مونگیر (۵۱) جناب حاجی ثناءاللہ رضوی (۶۱) سید شاہ حسن مانی سجادہ نشین بھاگلپوری (۷۱) جناب مولانااسیر ادروی صاحب بنارس (۸۱) مولانا محفوظ رحمانی شاہین جمالی صاحب (۹۱) مفتی اعجاز ارشد صاحب قاسمی مدھوبنی (۰۲) انجنیر محمد محسن صاحب پاٹلی پترا(۱۲) جناب پروفسیر مصطفی سیماب صاحب (۲۲) مولانا عبد الواحد صاحب (۳۲) مولانا مفتی مجتبیٰ صاحب (۴۲) مفتی عبد الرزاق صاحب بھوپال (۵۲)مولانا یحیٰ قاسمی (۶۲) اسماعیل خان بھاگلپور( ۷۲) حضرت مولانا سلمان صاحب مظاہری (۸۲) مولانا قاری رضوان نسیم صاحب وغیرہ
اس کے علاوہ خاص طور پر امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم حضرت مولانا شبلی القاسمی نے متوفیان کے تئیں اظہار تعزیت کیا اورجمعیت علماءبہار کے صدر قاری محمد معین الدین قاسمی، نائب صدر مولانا حدیث اور ناظم اعلیٰ حسن قادری اور امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا ولی رحمانی کے تئیں خراج عقیدت پیش کیا ۔ انہوں نے الحاج حسن احمد قادری کے سلسلہ میں اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ملی تنظیموں کی تاریخ الحاج حسن احمد قادری کے خدمات کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا ۔ وہ سبھی تنظیموں کو ساتھ لے کر چلتے تھے ۔ جب کبھی ملت پر مسئلہ درپیش آتا وہ سبھوں کو سرجوڑ کر بیٹھنے کیلئے کہتے ۔ ان کی رحلت سے قوم نے ایک سچا ہمدرد کھو دیا ہے ۔ آل انڈیا ملی کونسل کے نائب صدر مولانا انیس الرحمٰن قاسمی نے بھی تمام متوفیان کے تئیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملت کے ان معماران کی رحلت سے بڑا نقصان ہوا ہے ۔ حضرت امیر شریعت مولانا ولی رحمانی کا اچانک انتقال ہوجانے قوم نے ایک عظیم ہستی کھودیا ہے ۔ ۔ قاری معین الدین قاسمی ، مولانا حدیث صاحب اور الحاج حسن احمد قادری کی رحلت سے جمعیت کا بڑا نقصان ہوا ہے ۔ خاص طور الحاج حسن احمد قادری جیسا ملت کے تئیں مخلص اور ہمدرد شخص کا ہم لوگوں کے درمیان سے چلے جانا ایک عظیم خسارہ ہے ۔ وہ بالکل بے نیاز ہوکر کام کرتے تھے ۔
مولانا شکیل احمد قاسمی نے بھی الحاج حسن احمد قادری کے حیات وخدمات و روشنی ڈالتےہوئے کہا کہ قادری صاحب کے سینہ کے اندر ملت کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا تھا ۔ وہ ملت کے مسائل کے تئں ہمیشہ حساس رہتے اور اس کو حل کرانے کی آخری کوشش کرتے ۔ سابق ایم ایل اے ڈاکٹر اظہار احمد نے کہا کہ الحاج حسن احمد قادری کی کاوشوں کا میں گواہ رہا ہوں وہ جس جوش و جذبہ کے ساتھ بکام کرتے تھے اب ویسے لوگ ملنا مشکل ہے ۔ اس موقع پر الحاج حسن احمد قادری کے فرزند اور جمعیت علماءبہا کے ناظم ڈاکٹر فیض احمد قادری نے اپنے والد کے اوصاف اور انکے خدمات کا اجمالی تذکرہ کیا ۔
اس مجلس میں تعزیتی کلمات پیش کرنے والے دیگر لوگوں میں جاوید اقبال ، کشن گنج، قاری غضنفر،گیا، مولانا جسیم الدین ، مولانا اسعد قاسمی، مولانا مکرم الحسیینی ، بیگوسرائے ، جاوید اقبال قاسمی، موتیہاری، مولانا عامر عرفات ، بیتیا، صابر نظامی، بیگو سرائے، مولانا صدر عالم نعمانی ،سیتامڑھی ، مولانا احمد حسین ، پورنیہ، مولانا مسیح الزماں، بھاگلپور، مولانا الیاس مخلص، کشن گنج،مولانا فاروق، گیا ، مولانا احسان قاسمی ، پالی گنج، مفتی سراج سپول، مولانا سراج الحق قاسمی، شیوہر، مولانا ابو صالح ندوی، مولانا اطہر جاوید وغیرہ کے نام شامل ہیں
جمعیة علماءہند کی بنیادی ممبر سازی مہم کے ایجنڈے پر یہ تجویز آئی کہ جمعیة علماءہند کی بنیادی جدید ممبر سازی کے لئے جمعیة علماءہند کی طرف سے تاریخ متعین کردی گئی ہے۔
آخری تاریخ ۱۳جولائی ۱۲۰۲ئ مقرر کردی گئی ہے۔ ممبرسازی مہم کو کامیا بی سے ہمکنار کرنے کے لئے جمعیة علماءہند (بہار) کی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس طے کرتا ہے کہ ہر ضلع ضلعی منتظمہ کاایک اجلاس منعقدکرے اور اساجلاس میں مدعوئین خصوصی کی حیثیت سے مدارس کے علمائ، ائمہ مساجد، اقلیتی اسکول و کالج کے مسلم اساتذہ ، ملی جذبہ رکھنے والے ڈاکٹرس، انجینئرس، پروفیسر، وکلائ،تاجر ، دانشور طبقہ بالخصوص مسلم نوجوانوں کو مدعو کیا جائے اور انہیں جمعیة علماءہند کے اغراض ومقاصد،اس کی ضروت و اہمیت اور خدمات سے واقف کرایا جائے اور
تحریک کی شکل میںممبر سازی مہم چلائی جائے تاکہ لوگ جمعیة سے وابستہ ہوں۔ کوشش کی جائے کہ ہر کلمہ گو بالغ مرووعورت اس کی بنیادی ممبرسازی قبول کرے۔
تنظیم کو بلاک سطح پر فعال ومتحرک بنانے کے ایجنڈے پر یہ تجویز آئی کہ
جمعیة علماءبہار کی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس متفقہ طور پر یہ طے کرتا ہے کہ جمعیة کے دستور کے مطابق ہر ضلع میں کم از کم دو مقامی جمعیة لازمی طور پر بنائی جائے بلکہ بلاک سطح پر تنظیم قائم کی جائے۔ اس سے مقامی سطح پر لوگوں کے مسائل سے روبرو ہونے اور اسے حل کرنے میں سہولتیں ہوں گی اور ناگہانی حالات میں متاثرین کو امداد فراہم کرنے میں آسانی ہوگی۔ ہر ضلع سال میں ایک بار منتظمہ اور دومرتبہ عاملہ کا اجلاس منعقد کرے جس میں صوبائی نمائندہ کو بھی مدعو کیا جائے، علاوہ ازیں ضلع کے صدر مقام پر جمعیة کے دفتر کا نظم ہوجس میں روزانہ دوگھنٹہ یا ہفتہ میں ایک دن ضلعی عہدیدار وقت دیا کریں ۔ اس سے دفتری نظام متحرک ہوگا اور عوام کے مسائل سے روبرو ہونے اور اسے حل کرنے میں مدد ملے ۔

رد قادیانیت اور فتنہ شکیلیت کے سد باب کی صورتوں پر غور وخوض کیلئے یہ تجویز آئی کہ ختم نبوت کا عقیدہ امت مسلمہ کے لئے بنیادی عقائد میں شامل ہے ، اس معاملے میں کسی بھی قسم کا شک وشبہ ایمان کی نعمت سے محرومی کا سبب بناکرتاہے۔ قرآنی آیات نص قطعی کے ذریعہ ختم نبوت کااشارہ ملتاہے اور حدیث پاک کے ذریعہ اس کی وضاحت بھی ملتی ہے۔ یہ امت آخری امت ہے اور جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ اب قیامت تک کسی بھی نبی کی آمد کا معاملہ نہیں ہے۔
ہرزمانے میں نبوت کے دعویدار سامنے آئے اور اپنے کیفر کردار تک پہنچے، ہندوستان کی سرزمین پر مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا اعلان کیا علماءحق نے اس کا مقابلہ کیا اور تحریک ختم نبوت کے ذریعہ عوامی طور پر تحریک چلائی اور بحمد للہ اس پر کنٹرول ہوا، لیکن ادھر چند سالوں سے اس فتنہ نے پھر گاو ¿ں دیہات میں پیر پھیلانے شروع کردیئے ہیںاور ناخواندہ وبھولے مسلمانوں کے درمیان اپنا جال بچھا کر لوگوں کواپنی جانب راغب کررہے ہیں، ان کے اس عمل سے مسلمانوں کی ایک تعدادبے دین ومرتد ہورہی ہے۔ مجلس عاملہ اور ضلعی ذمہ داران اس پر غور وخوض کریں اور اس کے سدباب کے لئے کوئی لائحہ عمل طے کریں۔
فتنہ شکیلیت :۔شکیل بن حنیف کا پھیلایا ہوا فتنہ تحریک قادیانی سے ملتا جلتا ہے ۔ شکیل نے بھی مسیحیت کا دعویٰ کررکھا ہے، اس کے عقائد ونظریات بھی اسلام مخالف ہیں، بہت سارے عصری علوم سے تعلق رکھنے والے سادہ لوح مسلمان بچے اس فتنہ کا شکار ہوکر مرتد ہورہے ہیں۔ اس وقت یہ فتنہ صوبہ بہار کے بھی مختلف اضلاع میں اپنے کام میں سرگرم ہے جس پر روک لگانا اور اسلامی عقائد پر لوگوں کو قائم رکھنا اور دین متین کی صحیح سمت پر چلاناملت کے ہرفرد کی ذمہ داری ہے۔
مجلس عاملہ کے ذمہ داران اس پر بھی غور وخوض کریں اور اس کے سد باب کے لئے کوئی لائحہ عمل طے کریں۔
ملک کی موجودہ صورت حال پر کے ایجنڈے پر یہ تجویز آئی کہ
جمعیةعلماءبہار کی مجلس عاملہ ملک میں بڑھتے ہوئے ہجومی تشددکے واقعات پر تشویش کا اظہارکرتی ہے ، ملک کی مرکزی اورمتعدد صوبائی حکومتوں کا اس سنگین مسئلہ پر خاموشی اور بے توجہی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب ارباب اقتدار خودملک میں قانون وانصاف کے نفاذ کے بجائے بدامنی کو بڑھاوادے رہے ہیں ، ملک کی حکومتوں کا یہ رویہ انتہائی تشویشناک اور لائق مذمت ہے ۔
ملک کی سا لمیت اور یکجہتی ہی نہیں بلکہ تعمیر وترقی کا دارومدار انصاف وقانون کی بالادستی ہی سے وابستہ ہے اس لئے ہر ملک کی حکومتوں کا یہ اولین فریضہ ہے کہ قانون وانصاف کو بغیر کسی ذہنی تحفط کے عمومی طورپر رواج دیں ۔
جمعیةعلماءبہار کی مجلس عاملہ کا یہ احساس ہے کہ ہمارے ملک کی قومی حکومتیں ملک میں قانون وانصاف کی بالادستی قائم کرنے میں یکسر ناکام ہیں اور ملک کو شرپسندوں اورفسادیوں کے رحم وکرم پر چھوڑدیا ہے ، جس کے نتیجہ میں سپریم کورٹ کی ہدایتوں کے باوجود شرپسند طاقتوں نے قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے اور حکومت نہ صرف تماشائی بنی بیٹھی ہے بلکہ اس کے ممبران فسادیوں کی شرانگیزیوں اور ہجومی تشددپر تائید اور ہمت افزائی سے بھی گریز نہیں کررہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں پھیلتے اور بڑھتے ہوئے ہجومی تشددمیں مبادا ارباب اقتدار کی مرضی بھی شامل ہے ۔
یہ صورت حال ملک کے لئے انتہائی خطرناک ہے جو ملک کوانتشار اور افراتفری کی طرف لے جارہی ہے ، جس سے ملک کی ترقی ہی نہیں بلکہ اس کی سا لمیت بھی خطرے میں پڑگئی ہے ۔
جمعیةعلماءبہار کی مجلس عاملہ اس موقع پر ملک کے ہر ہمدرد اور بہی خواہ سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ملک کو اس سنگین صورت حال سے باہر نکالنے میں اپناحوصلہ مندانہ کرداراداکریں ،نیز مرکزی وصوبائی حکومتوں سے امید کرتی ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق ملک میں قانون کی بالادستی کو بحال کرکے امن وآشتی کو قائم کرنے کی اپنی دستوری ذمہ داری کو بروئے عمل لائیںگے ۔
جمعیةعلماءبہار کی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس محسوس کرتا ہے کہ ملک میں ایک ایسا طبقہ ہے جو قومی امن وآشتی اورباہمی رواداری وہم آہنگی کو قبول کرنے کو آمادہ نہیں ہے ، یہ طبقہ ملک کے شہریوں کو مذہب وزبان وغیرہ کی بنیادپر تقسیم کرنے کے لئے چن چن کر ایسے مسائل اور معاملات کو اٹھاتی ہے جس سے وہ اپنی منافرت اورعلیحدگی پسندگی کے مقصدمیں کامیاب ہوجائیں ۔
ایسے حالات میں ہر امن پسند اور ملک کی گنگا جمنی تہذہب سے واپستہ لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ حالات کا مقابلہ صبروتحمل کے ساتھ کریں ، بالخصوص مسلمانوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اپنے دین و مذہب کی پاسداری کرتے ہوئے سخت سے سخت جذباتی حالات میں بھی طیش وغضب میں آنے کے بجائے صبرو تحمل کا مظاہرہ کریں ، صابرین کے ساتھ اللہ کی مددہوتی ہے اور انتہائی نامساعد حالات بھی صبروتحمل سے موافق ہوجاتے ہیں ، صبروتحمل ہر دور میں اہل ایمان کا سب سے بڑا ہتھیاررہا ہے ، اس لئے ہمیں اپنے اس ہتھیارسے کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے ۔
ٓتجویز۔ ۶ کے مطابق جمعیت علماءبہار کا یہ اجلاس موجودہ حالات میں اس کا اظہار ضروری سمجھتا ہے کہ امارت شرعیہ بہار ، اڑیسہ وجھارکھنڈ کی تاسیس ملت کی ایک دینی وشرعی ضرورت کے تحت ہوئی اور ۱۲۹۱ ئ سے لے کر ۱۲۰۲ئ تک سوسالہ خدمات اہم رہی ہیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت مولانا شاہ بدرالدین قادری اور نائب امیر شریعت سید ابو المحاسن سجاد رحمة اللہ علیہ سے لے کر امیر شریعت سابع حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی رحمة اللہ علیہ تک جید عالم دین صاحب بصیرت و صائب الرائے وصاحب تجربہ حضرات ہی امیر شریعت ہوئے ہیں۔ امید ہے کہ آئندہ بھی ایسے ہی صفات کے حامل شخصیت کا انتخاب امیر شریعت کے لئے کیا جائے گا جو قوم وملت کے لئے نافع ومفید ہوگا۔مختلف اضلاع سے باوثوق ذرائع سے یہ خبر مل رہی ہے کہ کچھ لوگ فر دواحد کے لئے پورے بہار میں دستخطی مہم چلارہے ہیں، دستخطی مہم کا چلانا امارت شرعیہ کے دستور و آئین کے خلاف ہے جس کو کسی بھی حال میں قابل قبول اور منظور نہیں کیا جاسکتاہے۔آج کا یہ اجلاس امیر شریعت کے انتخاب سے پہلے دستخطی مہم اور اخبارات و واٹس ایپ کے ذریعے کی جانے والی کردار کشی کی مذمت کرتاہے اور علماءوارباب حل وعقد سے اپیل کرتا ہے کہ اس کو بند کرائیں اور اچھے ماحول میں انتخاب کریں۔
اس نشست کے اہم شرکاءمیں مولانا بدر احمد مجیبی نائب صدر جمعیت علماءبہار، مولانا سید شاہ مشہود احمد قادری ندوی ،حاجی بلال الدین خازن جمعیت علماءبہار، مولانا شبلی قاسمی ناظم امارت شرعیہ، مولانا انیس الرحمٰن قاسمی ملی کونسل، پروفیسر شکیل احمد قاسمی مولانا مکرم الحسینی، ڈاکٹر انوارالہدیٰ، مولانا صابر نظامی قاسمی و روح اللہ بیگو سرائے،مولانا محب اللہ قاسمی و مولانا محمد عباس قاسمی کھگڑیا، مولانا صدر عالم نعمانی سیتامڑھی، مولانا سید محب الحق مظفرپور، قاری الیا س مخلص، مفتی جسیم اختر، مفتی اطہر جاوید قاسمی، ماسٹر زاہد الرحمٰن محمد تنویر عالم و صبیح اختر کشن گنج، مولانا ابو صالح ندوی واجمل القادری نوادہ، محمد جنید عالم کٹیہار،
مولانا شبلی نعمانی ارریہ، مولانا مسیح الزماں، مولانا نسیم احمد قاسمی مدھوبنی، مولانا سراج الحق شیوہر، مفتی سعید الرحمٰن و مولانا حامد ندوی گوپال گنج، انجینیر سراج الدین سیوان، مولانا جاوید عالم قاسمی موتیہاری، مفتی نوشاد عالم ومولانا عامر عرفات قاسمی بتیا، قاری غضنفر علی قاسمی ومولانا فاروق قاسمی، احمد حسین قاسمی پورنیہ، ، مولانا احسان قاسمی، سعد احمد قاسمی، مولانا اسعد قاسمی، قاری محب اللہ عرفانی، وغیرہ شامل ہوئے۔ آخر میں صدر مجلس مولانامطیع الرحمٰن کی دعاءپر محفل اختتام پزیر ہوئی