عندلیب اختر


اقوام متحدہ کی ایک تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں موسمیاتی تبدیلی مسلسل جاری ہے اور پچھلے آٹھ سال تاریخ کے آٹھ گرم ترین سال تھے۔ ۲۲ اپریل ”مدر ارتھ ڈے” کے موقع پر جاری کی گئی ” اسٹیٹ آف دی گلوبل کلائمیٹ” رپورٹ کے مطابق سطح سمندر میں اضافہ اور سمندر کی گرمی نئی بلندیوں تک پہنچ گئی ہے جب کہ گرین ہاؤس گیسوں کی ریکارڈ سطح زمین، سمندر اور فضا میں تبدیلیوں کا باعث بنی۔


بڑے پیمانے پر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں گزشتہ سال دنیا بھر کو مزید خشک سالی، سیلاب اور گرمی کی لہروں نے آلیا جس سے لوگوں کی زندگیوں اور معاش کے لیے خطرات بڑھ گئے۔رپورٹ میں شدید موسم کے بہت سے سماجی و اقتصادی اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے جنہوں نے دنیا بھر میں سب سے زیادہ غیر محفوظ لوگوں کی زندگیوں میں تباہی مچا دی ہے۔مشرقی افریقہ میں مسلسل پانچ سال کی خشک سالی، مسلح تصادم جیسے دیگر عوامل کے ساتھ مل کر، پورے خطے کے دو کروڑ لوگوں کے لیے تباہ کن غذائی عدم تحفظ کا باعث بنے۔
عالمگیر موسمیاتی صورتحال سے متعلق رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماحول میں بہت بڑی مقدار میں پائی جانے والی گرین ہاؤس گیسوں کے باعث پورے کرہ ارض پر زمین، سمندروں اور فضا میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ادارے کا کہنا ہے کہ اس سال ‘دھرتی ماں کے دن’ سے پہلے جاری ہونے والی یہ رپورٹ عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود رکھنے کے لیے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بڑے پیمانے پر اور تیز تر کمی لانے کے لئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کی کی پکار کا اعادہ کرتی ہے۔علاوہ ازیں یہ رپورٹ خاص طور پر اُن انتہائی غیرمحفوظ ممالک اور علاقوں کو موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے اور اس کے خلاف خود کو مستحکم بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے لیے بھی کہتی ہے جن کا اس تبدیلی میں بہت کم کردار ہے۔ڈبلیو ایم او کے سیکرٹری جنرل پروفیسر پیٹری ٹالس نے کہا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے بڑھتے ہوئے اخراج اور تبدیل ہوتے موسم میں ”دنیا بھر کے لوگ شدید موسم اور موسمیاتی حادثات سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس ”مشرقی افریقہ میں متواتر خشک سالی، پاکستان میں ریکارڈ توڑ بارشوں اور چین اور یورپ میں اب تک آنے والی گرمی کی شدید ترین لہروں جیسے موسمی واقعات نے کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا۔ ان واقعات کے باعث غذائی عدم تحفظ میں اضافہ ہوا، بڑے پیمانے پر لوگوں نے نقل مکانی کی اور اربوں ڈالر کا نقصان اور تباہی ہوئی۔ڈبلیو ایم او نے انسانوں پر شدید موسم کے اثرات کو محدود رکھنے میں مدد دینے کے لئے موسمیاتی نگرانی اور ایسے واقعات کے بارے میں بروقت انتباہ کے نظام بنانے پر سرمایہ کاری کی اہمیت واضح کی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس وقت ترقی یافتہ ٹیکنالوجی نے قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کے عمل کو ”سستا اور پہلے سے کہیں زیادہ قابل رسائی بنا دیا ہے۔”
غیرمتوقع علامات
رپورٹ کے مطابق ”گلیشیئروں کے پگھلنے اور سطح سمندر میں اضافے کا عمل ہزاروں سال تک جاری رہے گا جو 2022 میں دوبارہ ریکارڈ سطح پر جا پہنچا تھا۔ ڈبلیو ایم او کا مزید کہنا ہے کہ ”بحر منجمد جنوبی میں برف کی تہہ میں تاریخی کمی آئی اور یورپ میں بعض گلیشیئروں کا پگھلنا واقعتاً غیرمتوقع تھا۔”گرین لینڈ اور انٹارکٹکا میں گلیشیئروں اور برفانی تہہ کے پگھلنے کے علاوہ گرمی کے سبب سمندری حجم بڑھنے سے بھی سطح سمندر میں اضافہ ہوا جس سے ساحلی علاقوں اور بعض صورتوں میں پورے ممالک کے وجود کو خطرات لاحق ہیں۔
تباہ کن نتائج
رپورٹ میں شدید موسمی حالات کے بہت سے سماجی۔معاشی اثرات کا جائزہ بھی لیا گیا ہے جس نے دنیا بھر میں غیرمحفوظ ترین لوگوں کی زندگیوں کو غارت کر دیا ہے۔ مشرقی افریقہ میں مسلسل پانچ سالہ خشک سالی اور مسلح تنازعات جیسے دیگر عوامل کے سبب خطے بھر میں 20 ملین لوگ تباہ کن غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔گزشتہ برس جولائی اور اگست کے دوران پاکستان میں آنے والے بہت بڑے سیلاب میں 1,700 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو گئے جبکہ اس آفت نے مجموعی طور پر 33 ملین لوگوں کو متاثر کیا۔ ڈبلیو ایم او نے واضح کیا ہے کہ اس سیلاب سے مجموعی طو رپر 30 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا اور اکتوبر 2022 تک 8 ملین لوگ اندرون ملک بے گھر ہو چکے تھے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سال بھر خطرناک موسمی حالات نے بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنے کے علاوہ پہلے ہی بے گھری کی زندگی گزارنے والے 95 ملین لوگوں میں سے بڑی تعداد کے لیے حالات بدترین بنا دیے۔
فطرت کے خلاف جنگ بندی
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ‘ارتھ ڈے’ پر اپنے پیغام میں خبردار کیا کہ ”حیاتیاتی تنوع کا خاتمہ ہو رہا ہے اور دس لاکھ انواع معدومیت کے دھانے پر ہیں۔ انہوں ں ے دنیا سے کہا کہ ”فطرت کے خلاف یہ مسلسل اور غیرمعقول جنگ” بند کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”ہمارے پاس موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے ذرائع، علم اور طریقہ ہائے کار موجود ہیں۔”
انتونیو گوتیرش نے گزشتہ مہینے اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام، نجی شعبے اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں پر مشتمل ایک مشاورتی پینل کا اجلاس منعقد کیا جس کا مقصد 2027 تک تمام ممالک کو شدید موسمی واقعات سے بروقت آگاہی کے نظام کے ذریعے تحفظ دینے کی غرض سے ایک عالمگیر اقدام کی رفتار تیز کرنا تھا۔اس موقع پر ابتداً 30 ایسے ممالک میں ایک تیزرفتار مربوط اقدام کا اعلان کیا گیا جو شدید موسم کے مقابل خاص طور پر غیرمحفوظ ہیں۔ ان میں چھوٹے جزائر پر مشتمل ترقی پذیر ممالک اور کم ترین ترقی یافتہ ملک شامل ہیں۔

AMN /UN