اے ایم این
انٹرنیٹ نے جہاں بچوں کے لیے رابطوں، سیکھنے اور کھیلنے کے لیے بہت سی سہولت مہیا کی ہے وہیں انہیں کئی طرح کے نئے تصورات اور اطلاعات کے متنوع ذرائع سے بھی روشناس کرایا ہے جن میں بعض ان کے لیے نہایت نقصان دہ ہوتے ہیں۔انٹرنیٹ استعمال کرنے والے بچوں کو ایسے پیغامات سے بھی واسطہ پڑتا ہے جن کے باعث وہ خود کو ناصرف نقصان پہنچا سکتے ہیں بلکہ خودکشی بھی کر سکتے ہیں۔ یہ بچے انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں کے لیے اپنی تنظیموں میں بھرتیوں کے لیے بھی آسان ہدف ہوتے ہیں۔ڈیجیٹل پلیٹ فارم غلط اور گمراہ کن اطلاعات پھیلانے کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں جن سے بچوں اور نوعمر افراد کو نقصان ہوتا ہے۔آن لائن جنسی استحصال اور بدسلوکی بھی بچوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ انٹرنیٹ رابطوں کی بدولت بچوں کا جنسی استحصال کرنے والوں کے لیے اپنے ممکنہ متاثرین تک رسائی اور دوسروں کو ممنوعہ جنسی مواد کی فراہمی اور اس کی ترغیب دینا بہت آسان ہو گیا ہے۔ 25 ممالک میں تقریباً 80 فیصد بچوں نے بتایا کہ وہ آن لائن جنسی بدسلوکی یا استحصال کے باعث خود کو خطرے میں محسوس کرتے ہیں۔ جب ٹیکنالوجی کمپنیاں تشہیری مقاصد کے لیے لوگوں کی نجی زندگی میں مداخلت کرتے ہوئے ان کے بارے میں معلومات جمع کرتی ہیں تو اس سے بھی بچوں کے لیے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔


زیادہ سے زیادہ وقت آن لائن رہنے والے بچوں کی تعداد سال بہ سال بڑھتی جا رہی ہے جس کے ساتھ انہیں نفرت پر مبنی اظہار اور پُرتشدد مواد سے واسطہ پڑنے کے خطرات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور وہ سائبر غنڈہ گردی اور ہراسانی کا نشانہ بن رہے ہیں۔


بین الاقوامی ٹیلی مواصلاتی یونین (آئی ٹی یو) کے مطابق، بچوں کو سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم اور آن لائن پیغاماتی ایپس پر تواتر سے سائبر غنڈہ گردی اور کئی طرح کے ‘آن لائن تشدد’ کا سامنا ہوتا ہے۔ 30 سے زیادہ ممالک میں ایک تہائی سے زیادہ بچوں نے ایسے واقعات کی شکایت کی ہے جن کے باعث 20 فیصد بچوں کو سکول چھوڑنا پڑتا ہے۔ادارے کے مطابق، گزشتہ سال دنیا بھر میں 14 سے 24 سال عمر کے 79 فیصد بچے آن لائن رہے جبکہ اس سے بڑی عمر کے آن لائن رہنے والے لوگوں کی تعداد 65 فیصد تھی۔ دنیا میں ہر نصف سیکنڈ کے بعد ایک بچہ پہلی مرتبہ آن لائن آ جاتا ہے۔اقوام متحدہ نے بچوں اور نوعمر افراد کو انٹرنیٹ پر لاحق کئی طرح کے خطرات سے تحفظ دینے کے لیے متعدد اقدامات شروع کیے ہیں اور اس ضمن میں دنیا بھر کی حکومتوں کو بھی مخصوص مدد فراہم کی جا رہی ہے۔


سائبر ہراسانی کے خلاف اقوام متحدہ کا کردار
چونکہ انٹرنیٹ سرحدوں سے ماورا ہے اس لیے نوعمر افراد کو آن لائن تحفظ دینا ایک عالمگیر مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ کئی پروگراموں اور اقدامات کے ذریعے بچوں اور نوجوانوں کو آن لائن تحفظ دینے کے لیے فعال طور سے کام کر رہا ہے۔’آئی ٹی یو’ نے آن لائن دنیا میں بچوں کے تحفظ سے متعلق آگاہی کو فروغ دینے اور اس معاملے میں حکومتوں، ٹیکنالوجی کی صنعت اور اساتذہ کی معاونت کے لیے بچوں کے آن لائن تحفظ کا اقدام (کوپ) شروع کیا ہے۔بچوں کے آن لائن تحفظ پر ‘آئی ٹی یو’ کی رہنما ہدایات کی صورت میں تمام متعلقہ فریقین کے لیے سفارشات کا ایک مجموعہ ترتیب دیا گیا ہے۔ اس کی بدولت وہ یہ جان سکتے ہیں کہ بچوں اور نوعمر افراد کے لیے محفوظ اور انہیں بااختیار بنانے والا آن لائن ماحول کیسے تخلیق کیا جا سکتا ہے۔اقوام متحدہ کا ادارہ برائے اطفال (یونیسف) سوشل میڈیا کمپنیوں کے ساتھ مل کر سائبر غنڈہ گردی کے حوالے سے چند عام مسائل کا تجزیہ کرنے اور ان سے نمٹنے کے طریقے تجویز کرنے پر کام کر رہا ہے۔ اس حوالے سے یونیسف نے اقدام مہربانی کا آغاز بھی کیا ہے جس کا مقصد آن لائن غنڈہ گردی کے مسئلے پر قابو پانا ہے۔یونیسف بچوں کے آن لائن جنسی استحصال کو روکنے اور اس کو ختم کرنے کے لیے ملکی اور علاقائی سطح پر کئی طرح کے اقدامات کر رہا ہے۔ ادارہ 20 سے زیادہ ممالک کو بچوں کے آن لائن جنسی استحصال کے خلاف اقدامات میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔ اس ضمن میں ایک خصوصی طریقہ کار کے ذریعے متاثرین کو خدمات کی فراہمی بہتر بنائی جاتی ہے۔


سائبر جرائم کے خلاف کنونشن پر اقوام متحدہ کی کمیٹی نے کنونشن کے نئے متن کی منظوری دے دی ہے جو آئندہ ماہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسداد منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) نے اسے ایک تاریخی قدم قرار دیا ہے جو ایسے وقت اٹھایا گیا ہے جب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں تیزرفتار اور غیرمعمولی ترقی ہو رہی ہے۔ یہ اس اعتبار سے بھی اہم اقدام ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کا جرائم اور دہشت گردی میں استعمال بھی بڑھتا جا رہا ہے جسے روکنا ضروری ہے۔’یو این او ڈی سی’ کا کہنا ہے کہ کمیٹی نے تین سال تک کڑی گفت و شنید کے بعد اس متن پر اتفاق کیا ہے جس میں اسے ادارے کی جانب سے تکنیکی و دیگر تعاون بھی میسر رہا۔یو این او ڈی سی’ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر غادہ والی نے واضح کیا ہے کہ اس متن پر اتفاق رائے سائبر جرائم پر قابو پانے کے لیے بین الاقوامی اقدامات کو مضبوط بنانے کی جانب ایک نہایت اہم قدم ہے۔ حالیہ برسوں میں ایسے جرائم بڑھ گئے ہیں جن کا نتیجہ بہت سے لوگوں کے استحصال، لوٹ مار اور دیگر جرائم کی صورت میں برامد ہوا ہے جن سے اربوں ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔اس معاہدے کی بدولت خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کو اس سنگین اور بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ یہ انہیں سائبر جرائم کے خلاف عدالتی تعاون میں سہولت دے گا، ممالک کے مابین جرائم کی الیکٹرانک شہادتوں کے تبادلے میں معاون ہو گا اور اس سے تکنیکی مدد کا حصول، صلاحیتوں میں اضافہ اور ٹیکنالوجی کو ایک سے دوسرے ممالک میں منتقل کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔
انسانی سمگلنگ کی روک تھام
انسانی سمگلنگ ایک ایسا عالمگیر مسئلہ ہے جس میں لوگوں کو منافع کی خاطر خریدا اور بیچا جاتا ہے۔ انسانی سمگلر اپنے متاثرین کو نشانہ بنانے اور لوگوں کو گھیرنے کے لیے انٹرنیٹ پلیٹ فارم کامیابی سے استعمال کرتے ہیں۔بچے اور نوعمر افراد قبولیت، توجہ یا دوستی کی تلاش میں ان کے دھوکے میں آ جاتے ہیں اور عام طور پر انہیں یہ دھوکہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر ہی دیا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کا ادارہ انسداد منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) رکن ممالک کو انسانی سملنگ کی روک تھام اور اس کا مقابلہ کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے جس میں بچوں کے لیے آن لائن تحفظ سے آگاہی کی سرگرمیاں بھی شامل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔