اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا گیا ہے کہ یمن میں جنگی فریقین قریباً ایک تہائی پر محیط تنازعے کا خاتمہ کرنے کی کوششوں میں پیش رفت کر رہے ہیں تاہم بہت سے مسائل اب بھی حل طلب ہیں۔
یمن کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ہینز گرنڈبرگ نے سلامتی کونسل میں سفیروں کو ملکی صورتحال سے آگاہ کیا۔
اس موقع پر انہوں نے سعودی عرب کے زیرقیادت اتحاد کی حمایت یافتہ اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکومت، اور اس کے مخالف حوثی باغیوں کے نمائندوں سمیت تنازعے کے علاقائی و بین الاقوامی کرداروں کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔
گرنڈبرگ نے کہا کہ مثبت اور تفصیلی بات چیت سے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور گفت و شنید میں شریک تمام فریقین نے آگے بڑھنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعمیری انداز میں چلنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
معاہدے کی امید
انہوں ںے کہا کہ “تمام فریقین امدادی و معاشی اقدامات پر معاہدے، مستقل جنگ بندی اور اقوام متحدہ کے زیرنگرانی اور یمنی عوام کے زیر قیادت سیاسی عمل کی بحالی کا واضح عزم رکھتے ہیں۔”
پرانی جنگ بندی تاحال کارآمد
دریں اثنا، اپریل 2022 میں طے پانے والی جنگ بندی سے یمن کے لوگوں کو تاحال فائدہ ہو رہا ہے حالانکہ اس کی مدت سات ماہ پہلے ختم ہو گئی تھی۔ اس کا ثبوت دارالحکومت صنعا سے تجارتی پروازوں کی ٓآمدورفت اور حدیدہ بندرگاہ میں ایندھن اور تجارتی سامان کی ترسیل کا کام کرنے والے بحری جہازوں کے داخلے سے ملتا ہے۔
گرنڈبرگ نے کہا کہ اگرچہ لڑائی کے اکا دکا واقعات اب بھی ہو رہے ہیں تاہم تنازعے کی شدت جنگ بندی سے پہلے کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔
انہوں ںے زور دے کر کہا کہ “نازک عسکری صورتحال، معیشت کے سنگین حالات اور یمن کے لوگوں کو روزانہ کی بنیاد پر درپیش مسائل ہمیں متواتر یاد دہانی کراتے ہیں کہ فریقین کے مابین ایک جامع معاہدہ طے پانا کیوں اہم ہے۔”
© WFP/Mohammed Awadh یمن کے شہر تیض کا علاقہ الجمالیہ طویل خانہ جنگی میں بری طرح متاثر ہوا ہے۔
تشدد اور معاشی خدشات
انہوں ںے کہا کہ محاذ جنگ پر، خصوصاً الجاف، طائز، مآرب اور سعادہ کے اضلاع میں تشدد کی متواتر اطلاعات آ رہی ہیں جس سے نازک صورتحال اور رسمی جنگ بندی کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔
خصوصی نمائندے نے یمن میں بگڑتی معاشی صورتحال اور نقل و حرکت کی آزادی پر عائد رکاوٹوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو شہریوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ تیل کی برآمد نہ ہونا اس کی ایک اہم وجہ ہے۔ گزشٹہ برس حکومت کو اپنی نصف آمدنی اسی ذریعے سے حاصل ہوئی تھی۔ علاوہ ازیں ملک کے مختلف حصوں میں بے ربط مالیاتی اور معاشی پالیسیوں نے بھی شہریوں اور کاروبار کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اہم مالی اور مالیاتی امور پر فریقین کے مابین تعاون کے فقدان کے نتیجے میں یہ مسائل مزید بگڑ جائیں گے اور ممکنہ طور پر مزید گہرے ہو جائیں گے۔
محتاط امیدیں
گرنڈبرگ نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ “ان شدید مسائل کے باوجود محتاط طور سے امید بھی باندھی جا سکتی ہے۔” انہوں ںے فریقین کی جانب سے اٹھائے گئے حالیہ مثبت اقدامات کا تذکرہ کیا جن میں ہزاروں جنگی قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہے اور کہا کہ تمام فریق ان کوششوں کو جاری رکھیں۔
خصوصی نمائندے نے واضح کیا کہ یمن کے بہت سے مسائل کا کوئی جزوی یا عارضی حل نہیں ہے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے یمن کے لوگوں کے زیرقیادت اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک مشمولہ سیاسی عمل کی اہمیت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ “صرف مشمولہ اور جامع سیاسی عمل کی بدولت ہی پائیدار طور سے نئی سیاسی شراکت تشکیل دی جا سکتی ہے اور ایک ایسا محفوظ اور معاشی طور سے مستحکم مستقبل ممکن بنایا جا سکتا ہے جس میں ریاستی ادارے فعال کردار ادا کریں اور یمن اپنے ہمسایوں کے ساتھ پُرامن تعلقات کو بحال کرے۔”