حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا کہنا ہے کہ ہم جنس پرستی کوئی جرم نہیں ہے۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس کے اس بیان نے بھارت میں سب کو حیرت زدہ کر دیا ہے کیوں کہ ہندو تہذیب و ثقافت کو دنیا کی بہترین تہذیب قرار دینے والی یہ تنظیم ملک میں ’ہندو تو‘ کے قیام کے لیے ہر ممکن حربے اپناتی رہی ہے اور 2014ء میں وزیر اعظم نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اس کی سرگرمیاں خاصی تیز ہوگئی ہیں، جس پر سول سوسائٹی اور سیکولر نظریات کے حامل افراد مسلسل نکتہ چینی کر رہے ہیں۔
آر ایس ایس کے سینیئر رہنما اور جنرل سیکرٹری دتاتریہ ہوسبولے نے ایک پروگرام میں کہا کہ ہم جنس پرستی کو کسی جرم کی طرح نہیں دیکھنا چاہیے اور اس پر کوئی سزا نہیں ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا، ’’میں مانتا ہوں کہ اس سے اگر دوسرے لوگوں کی زندگی پر اثر نہیں پڑتا، تو ہم جنس پرستی کے لیے کوئی سزا نہیں دی جانی چاہیے۔‘‘
اس ہندو قوم پرست رہنما کے اس بیان پر بھارت میں ایک تنازعہ شروع ہوگیا ہے، جس کے بعد دتاتریہ نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا، ’’ایسے مسائل کو نفسیاتی طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔ ہم جنس پرستی جرم نہیں ہے لیکن یہ سماج کے لیے غیر اخلاقی ہے۔‘‘ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کے اس بیان سے بھارت میں اس بحث کو تقویت مل سکتی ہے جس میں ہم جنس پرستی کو کوئی جرم نہ ماننے کے حق میں دلائل دیے جا رہے ہیں۔
بھارت ان 70 ممالک میں سے ایک ہے جہاں ہم جنس پرستی قانوناﹰ جرم ہے۔ اسے غیر فطری جنسی تعلقات کے زمرے میں رکھا گیا ہے اور اس میں ملوث پائے جانے والوں کو دس سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ لیکن ہم جنس پرستی کے حامی برطانوی نوآبادیاتی دور کے 158 سال پرانے قانون کو ختم کرانے کے لیے تحریک چلا رہے ہیں۔
دہلی ہائی کورٹ نے 2009ء میں اس قانون کو منسوخ بھی کر دیا تھا لیکن پھر عدالت عظمیٰ نے 2013ء میں اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ فی الحال یہ معاملہ ملکی سپریم کورٹ کے ایک آئینی بنچ کے زیر غور ہے۔
موجودہ وزیر خزانہ ارون جیٹلی (تصویر) ہم جنس پرستی کو جرائم کے زمرے سے خارج کر دینے کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘
اس کے برعکس بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کے اس بیان کا مقصد اس کے سابقہ بیانات کی طرح ہی عوام کی توجہ ملک کو درپیش اہم مسائل سے ہٹا کر نریندر مودی حکومت کو خوش کرنا ہے۔ آر ایس ایس نے پچھلے دنوں کہا تھا کہ بھارت میں رہنے والے ہر شخص کو ’بھارت ماتا کی جے ‘ کہنا چاہیے۔ اس متنازعہ بیان پر شدید بحث اب تک جاری ہ