FROM ANWARUL HODA IN PATNA
اس وقت پورے ملک میں وقف ترمیمی بل 2024کے سلسلہ میں سخت اضطراب وبے چینی کی کیفیت پائی جاتی ہے، اس ترمیمی بل کے ذریعہ مرکزی حکومت اوقاف کی جائیدادوں پرچور دروازے سے گھسنا چاہتی ہے تاکہ منمانہ طریقے سے اس کو استعمال میں لا سکیں، چنانچہ اس سلسلہ میں آل انڈیا مسلم پرنسل لا بورڈ کی تجویز وتحریک پر امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کے زیر اہتمام نیز ملی تنظیموں کے مشترکہ تعاون سے بہار اڈیشہ جھارکھنڈ اور مغربی بنگال کے ارباب حل وعقد، ارکان شوری، علماء وائمہ اسلامی اسکالر، ڈاکٹر میں انجینئر اور قانون داں سمیت سماج کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے دس ہزار سے زیادہ اصحاب فضل وکمال کا ایک عظیم الشان تاریخ ساز اجلاس 15ستمبر کو شہر پٹنہ کے باپو سبھاگارہال نزد گاندھی میدان میں زیر صدارت حضرت امیر شریعت، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری اور خانقاہ رحمانی کے سجادہ نشیں مفکر ملت مولانا سید احمد ولی فیصل رحمانی منعقد ہوا، جس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری اور ملک کے ممتاز صاحب نسبت بزرگ حضرت مولانا فضل الرحیم مجددی صاحب نے شرکت کی، اس اجلاس میں وقف ترمیمی بل 2024کے نقائص پر کھل کربحث ہوئی اور سرکاری نقطہئ نظر کے مضر اثرات سے عوام کو با خبر کرایا گیا،
اس اجتماع میں مغربی بنگال اور کرناٹک سمیت کئی ریاستوں کے وقف بورڈ کے چیرمین وذمہ داران اور ممبران نے بھی شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا، اور مختلف اصحاب کے اظہار خیال کے بعد اتفاق رائے سے شرکاء نے اس بل کو یکسر مسترد کرنے کی تجویز پاس کی،
اس موقع پر حضرت امیر شریعت مد ظلہ نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا کہ وقف ترمیمی بل2024اوقاف کی جائیدادوں کو کنٹرول کرنے کے لیے نہیں بلکہ واقف کے منشا کے خلاف اقدام کے لیے لایا جا رہا ہے، اس بل میں 153ترمیمات ہیں جو آئین اور دستور کے کئی دفعات سے متصادم ہیں، اگر خدانخواسہ یہ بل منظور ہوجاتا ہے تو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے بعد وہ بہت جلد ہی ختم ہوجائے گا۔ حضرت امیر شریعت نے فرمایا کہ اس بل کے پس پردہ جو ذہنیت او رسوچ کام کر ہی ہے اسے نہایت ہی گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے اور ان غلط فہمیوں کا معقول جواب دینا ہے جو اس راہ سے پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حضرت امیر شریعت نے فرمایا کہ بسا اوقات ملک میں ایسے حالات پیدا کر دیئے جاتے ہیں اور مخالف سمت سے آوازیں آنے لگتی ہیں کہ ہمارے اندر ایمان کی تازگی بڑھ جاتی ہے اور کچھ کر گذرنے کا جذبہ ابھرنے لگتا ہے، شاید یہ موقع بھی اسی طرح کا ہے کہ اللہ نے تمام مسالک ومشارب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا اور اتحاد واجتماعیت کے ساتھ آئینی طریقہ پر اس بل کو یکسر مسترد کرنے کی مشترکہ کوششیں چل رہی ہیں، اس مو قع پر حضرت امیر شریعت نے قانون سازی کے مختلف پہلووں کا تجزیہ بھی کیااور کہا کہ جمہوریت کا یہ کھیل کرکٹ کا کھیل نہیں ہے کہ صرف دو کھلاڑی کھیلے باقی سب بیٹھ کر تماشہ دیکھتے رہیں بلکہ یہ فٹ بال کے کھیل کی طرح ہے کہ اس میں سب کو کھیلنا پڑتا ہے، اس میں گول کھانا بھی پڑتا ہے اور گول کرنا بھی پڑتا ہے، اس لیے ہم سب کو جمہوریت کے اس کھیل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت اس بل کو فوراً واپس لے ورنہ اس کے خلاف تمام جمہوری طریقے اپنائے جائیں گے۔
اجلاس کے مہمان خصوصی حضرت مولانا فضل الرحیم صاحب مجددی نے کہا کہ
اس مجلس میں شریک ہو کر میں اپنے اندر شکر وامتنان کی کیفیت محسوس کرتا ہوں اللہ تعالیٰ ہمارے اس اجتماع پر رحمتوں کی بارش برسائے، اس وقت ہمارا ملک تاریخ کے نہایت ہی نازک دور سے گذر رہا ہے،ماضی میں اس ملک کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد کرانے میں ہمارے بزرگوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں، اگر تحریک آزادی میں یہ شریک نہ ہوتے تو شاید ہمارا ملک بھی آزاد نہ ہوتا، اس جدوجہد
آزادی میں انہوں نے جان ومال کی قربانی پیش کی، یقین مانیے کہ ہم سب لوگ بھی دین وشریعت کی حفاظت کے لیے ہر طرح کی قربانی پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس لیے کہ مسلمان بھوکا رہ سکتا ہے لیکن دین وشریعت پہ آنچ آنے کو بر داشت نہیں کر سکتا۔ مرکزکی بی جے پی حکومت مسلمانوں کے ملی شعائر وتشخصات کو ختم کرنے کی نا روا کوشش کر رہی ہے، جنہیں ہمیں جمہوری اور آئینی طریقہ پر حل کرنا ہے،ہم اپنے دینی وملی تشخصات سے دستبردار ہونے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے، اس وقت اوقاف کی جائیداد کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے وقف ایکٹ 2013میں ترمیمات کرکے واقف کے منشا کے خلاف اس پر قبضہ وتسلط حاصل کرنا چاہتی ہے، ہم لوگوں نے آپ لوگوں کے تعاون سے جے سی بی کے چیرمین کو احتجاجی میل بھیجا ہے انشاء اللہ اس کے مثبت اثرات ظاہر ہوں گے اور آگے بھی جمہوری طریقہ سے ہم کام کرتے رہیں گے، ہم کو وطن سے محبت ہے، ہم گنگا جمنی تہذیب کو بکھرنے نہیں دیں گے۔
امارت شرعیہ کے نائب امیر شریعت حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی صاحب نے فرمایا کہ وقف ترمیمی بل کے ذریعہ ہمارے بزرگوں اور اصاحب خیر کی موقوفہ جائیداد پر قبضہ کرنا چاہتی ہے، مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ انہوں نے غلط جگہ پر ہاتھ رکھ دیا ہے، یہ ملت ایک زندہ ملت ہے، سب کچھ بر داشت کر سکتی ہے، مگر مساجد، قبرستان، درگاہیں، مدارس اور خانقاہوں سے دستبردار نہیں ہو سکتی، یہ حیرت کی بات ہے کہ زمین ہماری ہے اور قانون آپ بنائیں گے، یہ کون سا انصاف ہے، ملت بیدار ہے اور متحد ہو کر مقابلہ کے لیے تیار ہے۔ مسلمانوں کے اتحاد واجتماعیت سے مرکزی حکومت کے نا پاک عزائم پر پانی پھیرا جا سکتا ہے، بس ضرورت ہے بیدار رہنے اور ہوشیار رہنے کی، اگر ضرورت پیش آئی تو یو سی سی اور این آر سی کے طرز پر تحریک چلانے کی تو ہم سب لوگوں کو اس کے لیے بھی تیار رہنی چاہیے۔
اجلاس کے منتظم اور امارت شرعیہ کے فعال قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب نے اپنے استقبالیہ کلمات میں ملک کی مختلف ریاستوں سے تشریف لانے والے مندوبین کرام کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ اس وقت حکمراں طبقہ نفرت وعداوت بیج بونے اور ملک کے ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کر رہا ہے، خاص کر ملک کے اقلیتی طبقات کو پریشان کیا جا رہا ہے، کبھی بلڈوزر کارروائی کی جاتی ہے اور کبھی ان کے شعائر پر حملہ کیا جا تا ہے، یہ اوقاف شعائر اسلام میں سے ہے جن کو صاحب حیثیت نے خیر وبھلائی کی خاطر نفع رسانی کے لیے وقف کیا ہے، اور جب کوئی وقف کرتا ہے تو اللہ کی ملکیت میں چلا جاتا ہے،ضرورت اس بات کی تھی کہ حکومت ایماندارانہ طریقہ سے اس کو نافذ کرنے کی کوشش کرتی مگر ترمیمات کے ذریعہ اس کو ہڑپنے کی جد وجہد کر رہی ہے، اس طرح کی حرکتیں سطحی سوچ کے لوگ کر رہے ہیں، انہیں بنیادوں پر آل انڈیا مسلم پر سنل لا بورڈ کی تجویز وتحریک پر امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ، جھارکھنڈ ومغربی بنگال کے تحت یہ اجلاس حضرت امیر شریعت مدظلہ کی صدارت میں طلب کیا گیا ہے، ماضی میں بھی ملت پر جب کبھی مشکل حالات پیش آئے امارت شرعیہ نے حوصلہ مندانہ قیادت کی جس کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اس بل کے تعلق سے بھی ہم لوگوں نے ملی جماعتوں کے مشترکہ تعاون سے مرکزی وریاستی سطح کے اعلیٰ عہدیداران سے ملاقاتیں کیں اور حضرت امیر شریعت کا مرتب کردہ میمورنڈم پیش کیا، جس میں بل نقائص کی نشاندہی کی اور اس کو یکسر مسترد کرنے کی درخواست کی۔ انشاء اللہ امارت کی تحریک جا ری رہے گی۔
قاضی شریعت امارت شرعیہ مولانا مفتی محمد انظار عالم قاسمی نے وقف قانون کی تاریخی حیثیت پر کہا کہ ہندوستان کی آزادی کے اوقاف کی جائیدا د کی حفاظت کے لیے 1954وقف ایکٹ منظور ہوا، جس میں کچھ خامیاں رہ گئی تھی جنہیں ہمارے بزرگوں نے اصلاح کی طرف توجہ دلائی اور بالآخر 2013میں وقف ایکٹ منظور ہوا جو کسی حد تک واقف کے منشا کے مطابق ہے، مگر حکومت اس میں ترمیم کرنا چاہتی ہے اس لیے ہم حکومت ہند کو صاف بتا دینا چاہتے ہیں کہ ہمیں آپ کا وقف ترمیمی بل کسی بھی قیمت پر منظور نہیں ہے۔
مفتی محمد سعید الرحمن مفتی امارت شرعیہ نے کہا کہ اسلام میں وقف کی بڑی حیثیت ہے عہد نبوت سے تادم ایں اصحاب ثروت عوامی فلاح وبہبود کے لیے اپنی اراضی وقف کرتے آ رہے ہیں، جس کا ایک پورا شرعی نظام بھی اور اسی کے تحت کسی حد تک آئین میں گنجائش بھی رکھی گئی ہے، مگر مرکزی حکومت کی بد نیتی سامنے آنے لگی ہے اور اب وہ اس میں ترمیم کرکے منشا وقف کو سبو تاز کرنا چاہتی ہے جسے کسی بھی طرح قبول نہیں کیا جا سکتا ہے۔
(۱)مغربی بنگال وقف بورڈ کے چیرمین اور سابق جج جناب سعید اللہ منشی نے کہا کہ قانون بنانے کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے اس وقف بل کا مقصد اوقافی جائیدا کو ختم کرنا ہے کیوں کہ وقف کو کئی خانوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے اور اسی کے ذریعہ حکومت اس پر تسلط حاصل کرنا چاہتی ہے،ا نہون نے قانونی نقطہ نظر سے بل کے نقائص پر بھی گفتگو کی۔
(۲)کرناٹک وقف بورڈ کے چیرمین جناب انور پاشا نے کہا کہ ملک میں اوقاف کا نظام بہار سے بنااور واقعتا اس بل کو مسترد کرنے کی تحریک بھی مضبوط انداز میں بہار سے چلی تو یقین مانئے کہ اس کے خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے کرناٹک میں اس موضوع پہ عہدیداران سے مشاورت ہوئی ہے اور اس بل کو بالکلیہ مسترد کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔
(۳)کانگریس پارٹی کے سرگرم ممبر پارلیامنٹ اور جے پی سی کے رکن جناب ناصر صاحب کہا کہ جوائنٹ پارلیامنٹری کمیٹی میں 17سرکار کے ممبر ہیں اور 14اپوزیشن پارٹیوں کے نمائندگان ہیں، جس کی کئی نشستیں ہو چکی ہیں، ہم لوگوں نے اس کے ایک ایک دفعہ پر کھل کر بحث کی ہے اور بڑی حد تک غلط فہمیوں کو دور کرنے کی بھی جد وجہد کرتے آ رہے ہیں، مگر چونکہ یہ ایک سازش کے تحت بل لایا جا رہا ہے، مرکزی حکومت کے پاس ووٹ بینک کے لیے کوئی ایشو نہیں ہے، اس لیے اوقاف کی جائیدادوں کو قبضہ کرنا چاہتی ہے، ہم لوگوں نے پورے طور پر کمیٹی میں بات کہی ہے کہ بل پوری طرح سے غیر آئینی ہے اور ہماری جد وجہد جاری رہے گی۔
مولانا محمد سہراب ندوی صاحب نائب ناظم امارت شرعیہ نے فکر امارت پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ امارت ملت کی امانت ہے اور اس نظام کو سنبھال کر رکھنا ہم سب کی دینی وملی ذمہ داری ہے، انہوں نے امارت شرعیہ کے قیام کے اسباب ومحرکات او رعہد با عہد اس کے نظام کی وسعت پر گفتگو کی اور کہا کہ امارت شرعیہ کے بانیوں کی فکر مندیوں نے ملت کو جوڑنے کی ہر جہت سے کوشش کی آج ہمارا اور آپ کا اجتماع اس کا ایک عظیم مظہر ہے، ہم سب لوگ اسی طرح اتحاد واتفاق کے ساتھ ایک امیر شریعت کے ما تحت زندگی گذاریں اور وقف بل سے متعلق حضرت امیر شریعت کی جو ہدایات اور رہنمائی ملیں اس کے مطابق عمل پیرا ہوں۔
جناب مولانا پروفیسر شکیل احمد قاسمی صاحب نے کہا کہ وقف کی وہ جائیدادیں جن پر سرکاری عمارتیں بنی ہوئی ہیں یا سرکاری تحویل میں یں، اس کے انخلاء کی بھی کوششیں کی جائیں۔
مولانا محمد شفیق قاسمی صاحب نا خدا مسجد کولکاتا نے کہا کہ اوقاف کے اس مسئلہ کو یو سی سی اور این آر سی کی طرح تحریک کی شکل دی جائے، اور وقت کی وہ جائدادیں جن کے کاغذات اب تک وقف بورڈ میں رجسٹر نہیں ہوئے ہیں انہیں بھی وقف کرایاجائے۔
جناب احسان صاحب سی او وقف بورڈ مغربی بنگال نے کہا کہ وقف بل کو بہت ہی باریکی سے لایا گیا ہے، جس میں دھوکہ دھڑی کے ذریعہ حکومت قبضہ کرنا چاہتی ہے۔
مولا نا آفتاب عالم ندوی، دھنباد، مولانا وصی احمد قاسمی نائب قاضی شریعت مرکزی دارا لقضاء، پھلواری شریف، پٹنہ جناب مولانا قاضی محمد انور قاسمی رانچی، جناب مولانا اصغر مصباحی سکریٹری جمعیۃ علماء رانچی،جناب خالد احمد صاحب سابق چیئر مین کرنا تک وقف بورڈ،جناب مولانا مفتی محمد ابرار مظاہری، صدر مدرس مدرسہ جامعہ العلوم و خطیب جامع مسجد بھوبنیشور،جناب احسان صاحب ہی ای او
وقف بورڈ مغربی بنگال، جناب مولانا مفتی اشرف علی صاحب، جامعہ قاسم العلوم، اڈیشہ،جناب مولا ناشفیق عالم صاحب کلکتہ،محترمہ عظمی عالم صاحبہ کلکتہ،جناب انور پاشا صاحب، چیئر مین کرنا تک وقف بورڈ،جناب ضمیر احمد خان، رکن قانون ساز کونسل کرنا ٹک،جناب سعید اللہ منشی چیئر مین وقف بورڈ کلکتہ،جناب نصیر صاحب جے پی سی رکن،جناب مولانا سید امانت حسین صاحب،جناب مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی صاحب جناب مولانا محمد ناظم صاحب،جناب مولانا خورشید مدنی صاحب،جناب ڈاکٹر فیض احمد قادری صاحب،جناب مولانا رضوان احمد اصلاحی صاحب،جناب ڈاکٹر فرید صاحب نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
تحفظ اوقاف کا یہ اجتماع مختلف جہات سے مثالی رہا جس سے عوام کو ایک حوصلہ مندوبین کرام کو آرام وراحت پہونچانے، قیام تک رہنمائی کرنے اور ضیافت ومہمان نوازی کے ساتھ نظم ونسق کو بہتر بنائے رکھنے کے لیے امارت شرعیہ کے علماء وخدام ورضا کار چاک وچوبند اور سر گرم عمل رہے، شہر کے سماجی خدمت گار ونوجوان مہمانوں کی قدم قدم پر رہنمائی کرتے رہے، مقامی پولیس انتظامیہ بھی ہماری شکریہ کے مستحق ہیں، جنہوں نے ہمارا ہر طرح تعاون کیا، اس طرح یہ اجلاس بے حد کامیاب رہا، اجلاس کا آغازقاری وسیم اختر رحمانی استاذ دارالحکمت جامعہ رحمانی مونگیر کی تلاوت پاک سے پروگرام کا افتتاح ہوا،،مولانا شمیم اکرم رحمانی معاون قاضی دار القضاء امارت شرعیہ نے گلدستہ ناک پاک پیش کیا۔مولانا مفتی محمد ثناء الہدی ٰ قاسمی صاحب نائب ناظم امارت شرعیہ نے قرار داد پیش کی جنہیں اتفاق رائے منظور کیا گیا۔