FreeCurrencyRates.com

इंडियन आवाज़     29 Mar 2024 05:58:05      انڈین آواز

عدم برداشت کا مسئلہ اب بھی برقرار: اشوک واجپئی

نئی دہلی: ملک میں عدم برداشت بڑھنے کا الزام لگا کرساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ واپس کرنے والے معروف شاعر اور جانے مانے ثقافتی پیروکار اور ادیب اشوک واجپئی کا کہنا ہے کہ ایوارڈ واپسی کا معاملہ اب بھلے ہی نہ ہو رہا ہو مگر معاشرے میں عدم برداشت کا مسئلہ اب بھی برقرار ہے کیونکہ حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے بلکہ آئے دن اشتعال انگیز بیان دیے جا رہے ہیں اور ماحول کو زہریلا بنایا جا رہا ہے ۔مسٹر واجپئی نے اپنی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر یو این آئی کے ساتھ ہوئی بات چیت کے دوران یہ خیال ظاہر کیا۔ کل رات مسٹر واجپئی کی سالگرہ پر ان کا 15 ویں شاعری کا مجموعہ ‘نکشترہین سمے میں’’ اور ان کی تنقیدی کتاب ‘‘تین دروازے ’’ کا اجرا بھی کیا گیا۔

اس موقع پر دہلی یونیورسٹی میں ہندی کے پروفیسر اپوروآنند نے ان سے ادب اور سمے پر بات چیت بھی کی۔ مسٹر واجپئی کے 75 ویں سالگرہ پر موسیقی اور رقص کا تین روزہ پروگرام بھی آج سے منعقد ہو رہا ہے ، جس میں جانی مانی رقاصہ اور دھرپد گلوکار حصہ لے رہے ہیں۔للت کلا اکیدمی اکیڈمی کے چیرمین اور مہاتما گاندھی بین الاقوامی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر مسٹر واجپئی نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ ایوارڈ کی واپسی کے واقعات اب بند ہو گئے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ملک میں عدم برداشت کا مسئلہ ختم ہو گیا ہے ۔ یہ اب بھی جاری ہے ، روز اس طرح کے واقعات ہو رہے ہیں اور ان کی خبریں اخبارات میں آ رہی ہیں۔ کبھی کوئی کسی وجہ گرفتار کیا جا رہا ہے تو کہیں بیف کا مسئلہ اٹھایا جا رہا ہے ۔ کچھ لوگ اب بھی عامر خان کے پیچھے پڑے ہیں اور اشتعال انگیز بیان دیے جا رہے ہیں۔مسٹر واجپئی نے کہا،‘‘میڈیا نے عدم برداشت کے مسئلے کو وسیع تناظر میں پیش نہیں کیا۔

آپ دیکھئے سائنس کانگریس میں کتنی غیر سائنسی باتیں ہوئی۔ نوبل انعام یافتہ سائنس داں رام کرشن کو کہنا پڑا کہ یہ سائنس کانگریس ایک سرکس ہے اور وہ اس میں اب کبھی نہیں آئیں گے ۔ سائنس کانگریس میں گورنر بھی عجیب غریب بیان دے رہے ہیں، صدر کو کہنا پڑا کہ گورنر آئین کے دائرے میں کام کریں۔ پہلے بھی صدر جمہوریہ عدم برداشت کے معاملے پر کئی بار کی بول چکے ہیں۔ ادبی اور ثقاقتی اداروں پر کس طرح کے لوگ بٹھائے جا رہے ہیں’’مسٹر واجپئی نے کہا، ‘‘ نیشنل بک ٹرسٹ کا ادارہ آپ کے سامنے ہے ۔ ہندوستانی تاریخ تحقیقی کونسل میں کس طرح کے لوگوں کو صدر بنایا گیا تاہم عہدے کے بلا معاوضہ کی وجہ انھوں نے اسے چھوڑ دیا۔ نہرو میموری میوزیم کا حال آپ دیکھ ہی رہیں ہیں۔ یونیورسٹی میں رام مندر پر سیمنار ہو رہے ہیں۔ طالب علموں کے درمیان فرقہ وارانہ بنیاد پولرائزیشن کی کوششیں کی جا رہیں ہیں۔انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی درجے کو واپس لینے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ کل ملا کر ملک میں ماحول کو کتنا زہریلا بنایا جا رہا ہے اس لئے عدم برداشت کا مسئلہ اب بھی برقرار ہے ۔ ایوارڈ کی واپسی ان واقعات کے خلاف ایک طرح کی اظہار تھا۔ مصنف، آرٹسٹ وقت وقت پر مختلف ذرائع سے لڑائی لڑتے ہیں۔

ہماری جنگ لمبی جنگ ہے ۔ ایوارڈ واپسی تو اس جنگ کی علامت اور اس کا ایک حصہ تھا’’۔ یہ پوچھے جانے پر کہ ان کی طرح ادبی اب اس لڑائی کو کیا انجام دے رہے ہیں، مسٹر واجپئی نے کہا،‘‘ہم لوگ دارالحکومت میں 30 جنوری کو گاندھی جی کی شہادت کے موقع پر ماولنکر ہال میں ستیہ گرہ کا نام کانفرنس کر رہے ہیں جس میں مصنف دانشور وغیرہ بڑی تعداد میں حصہ لیں گے ۔ اسی طرح لکھنؤ، پٹنہ، جے پور، وارانسی وغیرہ شہروں میں بھی کانفرنس کرنے کا منصوبہ ہے ’’۔یہ کہے جانے پر کہ لوگوں کا کہنا ہے کہ بہار انتخابات کے بعد ایوارڈ واپسی کس سلسلہ بند ہو گیا، انہوں نے کہا، ‘‘یہ محض ایک اتفاق ہے اور ہم مصنفین کا بہار کے انتخابات سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، ہم میں سے کسی نے بہار انتخابات میں کوئی اعلان نہیں کیا اور نہ ہی کوئی بیان جاری کیا تھا تو اس بہار انتخابات سے جوڑ کر دیکھنا غلط ہے ’’۔یہ پوچھے جانے پر کہ ایوارڈ واپسی کرنے والے لوگ ایک خاص پارٹی کے خلاف ہیں۔ مسٹر واجپئی نے کہا، ‘‘مصنف کسی پارٹی کا آدمی نہیں ہوتا ہے ۔ وہ اپنے وقت کا سچ کہتا ہے چاہے کسی پارٹی کی حکومت ہو۔ ہم نے تو تمام سیاسی جماعتوں سے اپنی بات کہی تھی کہ ملک میں جس طرح کے حالات بنتے جا رہے ہیں اسے اس کو ٹھیک کرنے کی تمام جماعتوں کی ذمہ داری ہے ۔

مودی حکومت کو عوام نے مینڈیٹ حالات کو تبدیل کرنے کے لئے دیا تھا، ماحول کو زہریلا بنانے کے لئے نہیں۔ اب تو یہ حکومت اقتصادی محاذ پر بھی ناکام نظر آ رہی ہے ’’۔ مخالفین کا یہ بھی الزام ہے کہ مالدہ میں اقلیتوں کے تشدد کے رجحان پر آپ لوگ خاموش رہے ۔ مسٹر واجپئی نے کہا، ‘‘ہم اس طرح کے واقعہ کی سخت مذمت کرتے ہیں لیکن مرکزی حکومت اور بی جے پی کے لوگ مالدہ میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں لیکن اخلاق کے کیس اور کلبرگي کے معاملے کو ریاست کے امن و قانون کا معاملہ بتایا گیا۔ ہم لوگوں نے کرناٹک حکومت کے ڈھیلے رویہ پر تنقید بھی کی تھی، لیکن سب کچھ اب انتخابات کی وجہ سے کیا جا رہا ہے ۔ مغربی بنگال میں انتخابات ہیں اتر پردیش میں بھی رام مندر کا مسئلہ اٹھایا جا رہا ہے ، کیونکہ وہاں انتخابات ہونے ہیں’’۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت تعلیم میں معیار کی باتیں تو کرتی ہیں لیکن وہ اداروں میں ہو نے والی تقرریوں میں اعلی درجے کے معیار برقرار نہیں رکھ رہی ہے بلکہ دوسرے درجے کو فروغ دے رہی ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

خبرنامہ

رحمانی 30  کا داخلہ امتحان 30 اور 31 مارچ  2024 کو ہوگا۔

سینٹرز اور انٹرینس کی تفصیلات طلبا و طالبات کو ای میل، ایس ای ...

سابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ شہریار خان انتقال کرگئے۔

سابق سفارت کار مصنف اور دو بار پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے ...

روس: کنسرٹ ہال دہشت گردانہ حملے میں مرنے والوں کی تعداد 133 ہو گئی۔

© Russian Investigative Committee/TASS دہشت گردوں کے حملے میں زخمی 104 بالغ او ...

MARQUEE

Singapore: PM urges married Singaporean couples to have babies during year of Dragon

AMN / WEB DESK Prime Minister of Singapore Lee Hsien Loong has urged married Singaporean couples to have ba ...

Himachal Pradesh receives large number of tourists for Christmas and New Year celebrations

AMN / SHIMLA All the tourist places of Himachal Pradesh are witnessing large number of tourists for the Ch ...

Indonesia offers free entry visa to Indian travelers

AMN / WEB DESK In a bid to give further boost to its tourism industry and bring a multiplier effect on the ...

MEDIA

Noted Journalist Zafar Agha Passes Away

Journos shocked over his demise AMN / NEW DELHI Noted journalist and and the Editor-in-Chief Nation ...

MeitY notifies PIB fact check unit as fact checker of Central Government

AMN Ministry of Electronics and Information Technology (MeitY) had updated the Information Technology (Int ...

@Powered By: Logicsart