اکستان اور بھارت نے امن عمل کو آگے بڑھانے اور ایک دوسرے کے تحفظات کو سمجھنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات جنوری کے وسط میں اسلام آباد میں کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس بات کا فیصلہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی آج جمعہ 25 دسمب رکو لاہور میں ہونے والی ملاقات کے دوران کیا گیا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ایک مختصر غیر سرکاری دورے کے لیے جمعے کی سہ پہر اپنے 120 رکنی وفد کے ہمرا افغانستان کے دورے کے بعد کابل سے دہلی جاتے ہوئے تھوڑی دیر کے لیے لاہور رکے تھے۔
بھارتی وزیر اعظم مودی کی بھارت روانگی کے بعد لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے بتایا کہ مودی کا یہ ایک خیر سگالی دورہ تھا اور اس دورے کے دوران ہونے والی وزرائے اعظم کی ملاقات بہت مثبت اور خوشگوار رہی۔ ملاقات میں جامع مذاکرات کو آگے بڑھانے پر اتفاق ہوا۔ اس ملاقات میں اعتماد سازی کو فروغ دینے اور دونوں ملکوں کے عوام میں روابط بڑھانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سول اور فوجی قیادت مسائل کے حل کے حوالے سے متحد ہے۔
جماعت اسلامی نے بھارتی وزیر اعظم کی پاکستان آمد پر ناخوشی کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کیا ہے جبکہ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات پاکستان اور بھارت میں پائی جانے والی بد اعتمادی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔
پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کا استقبال کیا۔ نواز شریف کے ہمراہ ان کے قریبی
رشتہ دار وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف اور پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی ہوائی اڈے پر موجود تھے۔
لاہور کے علامہ اقبال ایئرپورٹ سے وزیراعظم مودی کو ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے لاہور کے نواحی علاقے رائیونڈ کے قریب واقع نواز شریف کے ذاتی فارم ہاؤس ’’جاتی عمرہ‘‘ لے جایا گیا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جاتی عمرہ بھارتی پنجاب کے اس گاؤں کا نام بھی ہے جہاں نواز شریف کا خاندان تقسیم ہند سے پہلے رہائش پذیر تھا۔
وزیر اعظم مودی نے جمعے کی صبح نواز شریف کو کابل سے ٹیلی فون کرکے انہیں ان کی سالگرہ کی مبارکباد دی تھی اور ان سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اس پر وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں لاہور میں چائے کی دعوت دی تھی۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم مودی کا یہ دورہ علامتی نوعیت کا ہے، اس دورے کے نتیجے میں پاک بھارت تعلقات میں کسی بڑے بریک تھرو کی توقع کرنا مناسب نہیں ہو گا۔ تاہم ان کے بقول یہ ملاقات پاکستان اور بھارت کی قیادتوں میں پائی جانے والی بد اعتمادی کو کم کرنے اور مسائل کے حل کے لیے ماحول سازگار بنانے میں مددگار ضرورثابت ہو گی۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے کابل سے افغانستان کے دورے کے دوران ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ وہ دہلی واپس جاتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف سے ملنے
وزیراعظم نریندر مودی وزیراعظم محمد نوازشریف سے ملاقات کیلئے جمعہ کی سہ پہر کابل سے واپسی پرمختصردورے پرلاہور اے ،لاہور ایئرپورٹ پر مختصر قیام کے بعد وہ جاتی عمرہ روانہ ہوگئے۔ وزیراعظم کا طیارہ جمعہ کی سہ پہر علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترا۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے بھارتی وزیراعظم کا خیرمقدم کیا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار اور وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف ان کے ہمراہ تھے۔
بھارتی وزیر اعظم نے اپنے ’آفیشل ٹوئٹر اکاونٹ‘ میں کہا ہے کہ ’میں آج (جمعہ) کی سہ پہر کو لاہور وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کروں گا، جہاں میں دہلی واپس جاتے ہوئے رکوں گا۔‘
بھارت کے وزیر اعظم افغانستان کے ایک روزہ دورے پر کابل گئے تھے جہاں انھوں نے افغانستان کی پارلیمان کی نئی عمارت کا افتتاح کیا۔ یہ عمارت بھارت کی طرف سے افغانستان کے عوام کے لیے ایک تحفہ ہے جو کئی سو ملین ڈالر کی مالی معاونت سے بھارت کے انجینئروں نے بنائی ہے۔